مہنگائی
یوں تو لگتا ہے بظاہر زلزلہ آیا نہیں
ہولے ہولے سے لرزتی ہے مگر پھر بھی زمیں
آسماں کو چھو رہے ہیں نرخ سوئی گیس کے
خیر سے بجلی بھی حاصل ہو گی اب مہنگی ترین
گھر کے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں دن بدن
بالمقابل ان کے لیکن آمدن بڑھتی نہیں
کل تلک جو جگمگاتی تھی بڑی امید سے
ماند پڑتی جا رہی ہے آج وہ روشن جبین
قرض اک زہر ہلا ہل ہے جسے ہم بے خبر
پی رہے ہیں ایک مدت سے سمجھ کر انگبیں
پھانس ہی لیتے ہیں قرضہ دینے والے ساہو کار
چار سو پھیلا کے کوئی دام ہم رنگ زمیں
لوٹ کی دولت چھپی ہے جو دیار غیر میں
ہاتھ آنا اس کا آساں تھا نہ آساں ہے کہیں
یوں تو حرکت تیز تر ہے اہل ہمت کی مگر
لگ رہا ہے کہ رہے گا پھر بھی پرنالہ وہیں
چھوڑ دے زردہ پلاؤ کی تمنائیں ضیاء
خیر سے ملتی رہے تجھ کو اگر نان جویں