مضر صحت دودھ پر بھی سو موٹو ہونا چاہیے
پانی اور دودھ کی بات بعد میں پہلے اساتذہ سے ساری قوم معافی کی طلب گار ہے ۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں میں جب اٹلی میں تھا میرا چالان ہو گیا ۔مصروفیت کے باعث چالان کی رقم جمع نہ کر سکا اور اس کیلئے مجھے کورٹ جانا پڑا ۔جج کے سامنے جب پیش ہوا تو جج نے رقم جمع نہ کرانے کی وجہ پوچھی تو کہا میں پروفیسر ہوں مصروف ایسا کہ وقت نہیں ملا ۔ اس سے پہلے کہ میں بات پوری کرتا ۔جج نے کہا A TEACHER IS IN COURT ٰ یہ سن کر سب کھڑے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگ کر چالان بھی کینسل کر دیا ۔ اس دن میں اٹلی کی اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا ۔ جس روز قوم نے سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اور پروفیسر وںکو ہیتھ کڑی لگا کر عدالت میں جاتے دیکھا تو اسی روز یہ قوم اپنی تنزلی کو جان گئی ۔ بھلا ہو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا جھنوں نے اس پرفوری ایکشن لیا ۔اسی ہفتے بیس کے قریب لیڈی ا ساتذہ اپنے وکیل کے ساتھ چیئر مین سروس ٹریبونل کی کورٹ میں پیش ہوئیں۔چیئر مین صاحب نے ان تمام اساتذہ کو سپیشل پروٹوکول دیتے ہوئے وکیل کے ساتھ اساتذہ کو بھی بولنے کا موقع فراہم کیا ۔ ایسا کرنے پر اساتذہ کو کہتے سنا کہ اب اگر ہمیں اس کورٹ سے ر یلیف نہیں بھی ملا تو کوئی بات نہیں، کورٹ نے ہمیں عزت دے دی ہے ۔ لگتا ہے اس وقت جسٹس ثاقب نثار ہی ایسے ہیں جو ہر مرض کی دو اسمجھے جاتے ہیں ۔ چیف صاحب میں خوبیاں بھی ہیں خامیاں بھی ۔ خو بیوں کی وجہ سے اکثر داد سمیٹ رہے ہوتے ہیں مگر خامیوں کی نشان دہی کوئی کوئی کرتا ہے ۔راقم معذرت سے ایک دو خامیوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہے آپ تمام اداروں کی خبر لیتے ہیں مگر اپنے ادارے پر خاموش ہیں ۔راقم پہلے بھی لکھ چکا ہے بابا رحمت کبھی اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈنڈا پھیر کر دیکھ لے بہت گند ہے ۔دوسری خامی یہ ہے کہ آپ جس جوش جذبے سے سوموٹو لیتے ہیں ،اس کا انجام نرم ہوتا ہے۔ باقی آپ خوبیوں کا مجموعہ ہیں۔ راقم دل سے خوش ہے کہ چیف صاحب انسانی صحت پر بہت دلجوئی سے کام کر رہے ہیں ۔ ہم پانی کی شکل میں زہر پی رہے تھے ۔ آپ نے سو موٹو لے کر ہمیں موت کے منہ سے جانے سے روکا ۔ دوسرا اس کی قیمت دو سو گنا زیادہ وصول کی جا رہی تھی ۔ بڑے بڑے ناموں والی پانی کی کمپنیوں کا پانی جب چیف جسٹس کے حکم پر چیک کرایا گیا تو مضر صحت نکلا ۔ قیمت کا بتا چلایا گیا تو دو سو گنا زیادہ مہنگا نکلا اور وہ پانی بھی مضر صحت نکلا ۔ گزارش ہے کہ وزارت خوراک میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف ایک نظام موجود ہے مگر وہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔ جن کی ڈیو ٹیاں ملاوٹ کو چیک کرنے کی ہیں وہ خود کرپشن میں رنگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔چند ٹکوں کی خاطر یہ کان اور آنکھیں بند کر لیتے ہیں جس پر عوام اور یہ خود مضر صحت چیزیں کھا تے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں ۔ اس کے لئے حکومت اگر خود سستے اور صاف پانی کے پلانٹ لگا کر پانی کی بو تلیں تیار کرے ۔ ایسا کرنے سے عوام کو اور حکومت دونوں کو فائدہ ہو گا ۔ پاکستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں نیچرل پانی پایا جاتا ہے ۔ان علاقوں میں حکومت بڑے بڑے پلانٹ لگا کر وہی سے پانی کی بوتلیں بھری جائیں ۔پرائیویٹ سیکٹر کو اس بزنس میں نہ آنے دیا جائے حکومت نو پرافٹ نو لاس پر پینے کا پانی عوام کو مہیا کرے ۔ ایسا کرنے سے قومی خزانہ بھی بھر جائے گا اور عوام کو صاف اور سستے داموں پانی بھی میسر ہو سکے گا۔ اب چیف جسٹس صاحب سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ جیسا آپ نے پانی میں سوموٹو ایکشن لیا ہے اسی طرح دودھ پر بھی ا سو موٹو لیں کیونکہ دودھ کی حالت اس پانی سے بھی کئی بدتر دکھائی دیتی ہے ۔پاکستان میں بھینس کا دودھ سوائے ان کے اپنے کٹی کٹوں کے کوئی خالص دودھ نہیں پیتا ۔ شروع میں لوگ دودھ میں پانی کی ملاو ٹ کرتے تھے۔ اب جعلی فارمولوں سے دودھ کی شکل میں زہر فروخت ہو رہا ہے ۔ اس میں ڈیٹرجنٹ اور یوریا کی آمیزش سے دو نمبر دودھ کمرشل بنیادوں پر تیار کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں دودھ کی پیداوار ڈبلیو ایچ او کے مطابق چودہ کروڑ لیٹرز ہے جب کہ فروخت ہونے والا دودھ پچاس کروڑ لیٹرز پایا جاتا ہے ۔ یہ زیادہ دودھ دو نمبر طریقوں سے مہیا کیا جا رہا ہے ۔ اس فروخت ہو نے والے دودھ میں فارن کمپنیاں بھی شا مل ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ برانڈڈ ملک اور ملک پوڈر کو بھی چیک کر ا یا جائے ۔ دودھ کے ملٹی نیشنل برائڈ رشوت دے کر مارکیٹنک کی اجازت حاصل کرتے ہیں ۔ انہیں بھی چیک کیا جائے ابھی جو دودھ مارکیٹ میں موجود ہے وہ دودھ نہیں زہر ہے ۔ اس دودھ کے پینے سے کینسر ، معدے اور ِ دل کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں ۔ کسی زمانے میں دودھ فائدہ مند مشروپ ہوا کرتا تھا مگر اب یہ مشروب نہیں بلکہ زہر قاتل بن چکا ہے ۔حقیت جاننے کیلئے بھینس سے رابطہ کیا ۔ بھینس نے غصے میں بتایا کہ وہی ظالم لوگ ہیں جو دودھ کے نام پر آپ کو زہر پلا رہے ہیں ۔یہ وہی لوگ ہیں جو زیادہ دودھ حاصل کرنے کیلئے ہمیں ٹیکے لگاتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو قصائی کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں تاکہ یہ بچے دودھ نہ پی سکیں۔ دودھ نکالنے کیلے مشینیں لگاتے ہیں۔ جس سے دودھ کے ساتھ خون بھی ہمارا نچوڑ لیا جاتا ہے ۔ ہم چیختی رہتی ہیں لیکن کوئی نہیں سنتا ۔جس سے ان ظالموں کے حوصلے بلند ہوتے رہے اور اب یہ کیمیکل ملا دودھ تیار کرتے ہیں۔ اب آپ لوگ دودھ سمجھ کر زہر پی رہے ہیں ۔ بھینس کی باتیں سن کر حیران ہوا پھر پریشان ہوا ۔یہ تو طے ہے کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے لہذا چیف جسٹس آف پا کستان سے ہی امید باقی بچی ہے کہ آپ پانی کی طرح دودھ پر بھی سو مو ٹو ایکشن لیں تاکہ عوام موت کے منہ میں جانے سے بچ سکیں ۔ ملک شاپ کیلئے لا ئسنس ایشو کئے جائیں ۔بغیر لائسنس کے دودھ بیچنے پر پابندی لگائی جائے ۔ اگر کوئی بھی ملاوٹ کرتاپایا جائے تو دوکاندار کے ساتھ اس علاقے کے فوڈ انسپکٹر کو بھی گرفتار کیا جائے ۔ ان پر جب تک چیک ایند بیلنس نہیں رکھا جائے گا۔ عوام بچارے یہ زہر کا پیالہ دودھ کی شکل میں پیتے رہیں گے ۔