حکومت اور حزب اختلاف کا کردار
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد مختلف مشکلات کا شکار رہا ۔10لاکھ سے زائد ہجرت کے دوران شہادتیں بچے بڑے اور خواتین پر ظلم و تشدد اور دیگر اندوہناک مظالم تاریخ کا حصہ ہیں ۔بھارت نے ہمارے حصہ کا خزانہ دیا اور نہ ہی اسلحہ بارود ۔پاکستان کی پہلی تنخواہ کے لیے حیدر آباد دکن کے امیر نے چیک دیا اسی دوران کشمیر پر حملہ اور پاکستانی جنرل گریسی کا جواب دینے سے انکار ایک بڑے تنازعے کا سبب بنا ۔حیدرآباد دکن ،مناوادر وغیرہ پر بھارت نے قبضہ کر لیا ۔معیشت کا برا حال اور مہاجرین کا Influxپریشان کن ،قائداعظم جلد ہی رحلت فرماگئے لیاقت علی خان لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کردیئے گے ۔سازشی عناصر جن میں سول اور ملٹری بیوروکریسی اور جاگیر دار اور سرماریہ دار شامل تھے اپنے اپنے مفادات اور ہندؤں اور سکھوں کی جائیداد پر قبضہ میں مصروف ہوگئے اس دوران مولوی تمیز الدین سپیکر اسمبلی اور جسٹس منیر کے درمیان آئینی مڈبھیڑ ہوئی اور جموریت اور آئین کی حکمرانی نت نئے خدشات کا شکار ہونے لگی ۔سکندر مرزا اور ایوب خان نے 1956میں اس سے قبل گورنر جنرل غلام محمد اور ایک سینئر بیوروکریٹ نے پاکستان کے بیمار مفلوج معاملات میں تباہی مچائی اور ہوش مند بااثر شخصیات پاکستان کے جسم کو نوچنے کے لیے گدھ بن گئے اور یہ سلسلہ یحییٰ خان غیر ذمہ دار شخص سے ہوتا ہوا 1971کے سانحے پر منتج ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے اور پھر عوامی پاکستان اور جموریت ہچکولے کھاتی رہی ۔دراصل جب اقتدارکی ہوس غالب آجائے تو پھر انسان نہ کسی کی سنتا ہے نہ مشورے قبول کرتا ہے اور خود عقل کُل شمار کرنے لگتا ہے۔میرے خیال میں بھٹو ایک ذہین آدمی اور لیڈر تھا مگر جلد ہی اپنی سوچ اور اپنے مشیروں اور قرابت داروں کے نرغے میں آگیا ۔اس کے ساتھ اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کو جلد ہی دور کرنا شروع کر دیا ۔حتیٰ کہ اخبارات پر پابندی اور کالے صفحات تک قوم کو دیکھنے کو ملے ۔اس دوران بھٹو اپوزیشن کے مذاکرات کامیاب ہونے کو تھے مگر کاتب تقدیر پاکستان کچھ اور لکھ رہا تھا کہ ہمارے نصیب میں جنرل ضیاالحق اگلے گیارہ سال اسلام کے نام پر اللہ اور عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اقتدار پر براجمان ہوگئے ۔سختیاں اور بندشیں قوم کا مقدر بنیں ۔اس دوران 1984،میں سیاچن کے کچھ حصے پر بھارت نے قبضہ کر لیا موصوف نے فرمایا وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی یہ ہے ہمارے مقتدر لوگوں کی ذھینت ۔بھٹو نے 1973کے آئین میں بہت مثبت کردار ادا کیا ۔ایٹمی پروگرام کو ایک سمت دی جو آج پاکستان کی سلامتی کا ضامن بھی ہے ورنہ اندراگاندھی نے تو 1971کے سانحے پر کہا تھا ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیا ۔انشااللہ نظریہ تو نہیں ڈوبے گا یہ زندہ رہے گا بقول قائداعظم ہم آخری سانس تک لڑیں گے جب تک نہ دشمن ہمیں اٹھا کر سمندر میں نہ پھینک دے ۔
ضیاء کے بعد ایک اور دور شرو ع ہوا ان کے حادثاتی موت کے سبب مگر سویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی بہت زیادہ شمولیت اور پھر اور پھر پرویز مشرف کی نااہلی کے سبب امریکہ کے تمام مطالبات کا unconditional،ماننا پاکستان اور قوم کے لیے دھشت گردی اور بھارت امریکہ افغانستان کی سازشیں اور پاکستان کے لیے بے گناہ بچوں بڑوں اور فوجی حضرات کی اموات اور معیشت کی تباہی پاکستان کے مسائل میں بے تحاشا اضافے کا سبب بنی ۔بے نظیر اور نواز شریف اور آصف زرداری کے ادوار میں پاکستان سے منی لانڈرنگ اور Kick-backs،کا وسیع سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے ۔ایک انداز ے کے مطابق پاکستان سے سالانہ 10ارب ڈالر بیرون ملک چلے جاتے ہیں ۔رہی سہی کسر سٹیٹ بینک ۔FBRاور دیگر مالیاتی ادارے پوری کر دیتے ہیں یہ کوئی راز کی بات نہیں ۔شوکت عزیز کے مطابق FBRسالانہ 700/800،ارب روپے خردبرد کرتا ہے ۔اب جبکہ 93ارب کے بیرونی قرضے ہیں اور عمران حکومت
10/12،ارب ڈالر کی فوری ادائیگیوں کے لیے کوشاں ہے ان اداروں پر خصوصی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان میں قابل اعتماد اور دیانت دار افراد کی ضرورت ہے اس پر خاصی لے دے ہو رہی ہے ناقدین کے درمیان ۔عمران کو ایک اچھی خاصی اپوزیشن کا سامنا ہے ضمنی الیکشن میں ایک جھلک ہے سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ سازشی عناصر پاکستان کو مستحکم نہ پہلے دیکھنا چاہتے تھے اور نہ آج ۔ہمارے ہاں ایک عمومی تصور اور سوچ ہے کہ عمران خان کم از کم پاکستان خزانے کی حفاظت ضرور کرے گا مگر جس طرح ایک خاص میڈیا اور بیشتر اپوزیشن حکومت مخالف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اگر حکومت کے اہم محکموں کے وزراء اور مشیر موثر جواب دھی کے ساتھ ساتھ ذمہ دارانہ رویئے اور عملی اقدامات جس میں خاصی توجہ کی ضرورت ہے منفی تاثر عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے ۔عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا ایک امید اور توقع کے ساتھ کہ بہتری ہوگی مگر گیس،بجلی ،پٹرول کے نرخوں میں معمولی اضافے پر ایک طوفان برپا ہے سابقہ ادوار کی لوٹ مار اور ان کے ذاتی مفادات کے پس منظر میں قومی مفادات اور معیشت اور وقار کو جو دھچکا لگا اس پر تنقید کرنے والوں کو قطعاً احساس نہیں اور منفی پروپیگنڈے سے عوام کو بدظن کرنا معمول کی بات ہے۔ حکومت وقت ان کے ترجمان اور عمران خان کو سوچ سمجھ کر پالیسی بیانات جاری کرنے کی ضرورت تو رہے گی مگر موجودہ حالات خاصی احتیاط کے ہر لمحہ تقاضا کرتے ہیں کیونکہ اندرونی اور بیرونی طاقتیں قوم اور پاکستان کا احساس اور درد رکھنے والے شخص اور اس کی سوچ کو کیسے قبول کر سکتے ہیں ۔70سال کے بعد ایک سمت میں چلنے کا پیغام دیا گیا ہے اس کے اثرات مرتب ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا کیونکہ فکری جہتیں چند ماہ میں مستحکم نہیں ہوتیں ۔اقبال نے کہا تھا ۔"جہاں تازہ کی ہے افکار تازہ سے نمود ۔
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا"۔
مٹی گارہ بہت دیکھ لیا اپوزیشن کو ذرا حوصلہ کرنا چاہیے کہ ایسا پاکستان کے مفاد میں ہے حکومت کو کچھ دن موقع ملنا چاہیے امید ہے ہاوسنگ پالیسی اور دیگر فیصلے چند ماہ میں تبدیلی کا رنگ دکھائیں گے اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہونگے ۔قرضوں سے نجات اور تعلیم و صحت اور روز گار اہم مسائل ہیں ۔اپوزیشن سوچے تو انہوں نے اپنے ادوار حکومت میں ان مسائل اور معاملات پر کس قدر توجہ دی ۔اگر ہمارے لیڈروں نے احتساب کے چند دن دیکھ لیتے اور محسوس کیا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ۔کیا انہیں تھر میں بھوک اور علاج کے بعد اموات کی فکر تھی اور ہے ۔جب سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کہتا ہے کہ بچے ہر سال پیدائش کے سبب کمزور ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں ۔بلدیہ ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن کے سانحات کا کون ذمہ دار ہے اور معیشت کی تباہی کاذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے سوچئیے تو؟ چین 1949میں چلا آج کہا ہے اور پاکستان کو زبوں حالی میں کس نے پہنچایا ذرا غور کریں ؟