قصور میں 6 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل کرنے والے مجرم عمران علی کو انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ کوٹ لکھپت جیل میں مجسٹریٹ کے علاوہ زینب کے والد محمد امین انصاری مقتولہ کے دو چچا اور ایک ماموں بھی موجود تھے۔ والد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں، تاہم سرِعام پھانسی دی جاتی تومجرم عمران علی عبرت کا نشان بنتا۔
معصوم زینب سے زیادتی اور اُس کے قتل کا المناک واقعہ قصور شہر میں جنوری 2018ء میں ہوا۔ مقتولہ 6 / جنوری کو لاپتہ ہوئی اور 9 / جنوری کو کچرا کنڈی سے اس کی نعش ملی۔ جس کے بعد ملک میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، احتجاج اورمظاہرے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا۔ پولیس ڈی این اے ٹیسٹ کے رزلٹ کی روشنی میں مجرم عمران علی تک پہنچی۔ 17 / فروری کو مجرم کو چار مرتبہ سزائے موت، تاحیات قید اور سات سال قید کی سزا ہوئی۔ سزا کے خلاف اپیلیں خارج ہونے کے بعد اس سفاک قاتل کوبدھ 17 / اکتوبر کو پھانسی دے دی گئی۔ معصوم زینب کے ایک جنونی درندے کے ہاتھوں بہیمانہ قتل اور اسکے ساتھ جنسی زیادتی کا دُکھ ، والدین ہی نہیں، پورے ملک میں محسوس کیا گیا۔ یقیناً والدین کے دُکھ اور درد کا مجرم کوموت سے بھی کڑی سزا مداویٰ نہیں کر سکتی۔ تاہم اس سانحہ پر جس طرح، عدلیہ، حکومت، پولیس، میڈیا اور عام آدمی نے ردِعمل دیا، اگر یہی جذبہ اور سوچ بیدار رہی تو آئندہ ایسی سفاکانہ وارداتوں کے سدباب میں بڑی مدد ملے گی۔ ایسے ظالم انسانوں کو مثالی سزائیں دے کر ہی معاشرے میں کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے قبیح جرائم کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ بہرحال اس حوالے سے سوسائٹی پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کہ ذرائع ابلاغ فلموں اور ڈراموں میں ایسے مواد کی حوصلہ شکنی کی جائے جو پہلے سے بگڑے ہوئے افراد کو مزید بے راہ کرتے اور اُنہیں انجام سے بے پروا ہو کر ایسے قبیح افعال پر آمادہ کرتے ہیں۔ اگر ہم معاشرے کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے جرائم کے محرکات کا تدارک بھی کرنا ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024