جمعرات ‘ 8؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 18اکتوبر 2018ء
بجلی مہنگی کرنے کا فیصلہ ایک ہفتے کے لئے موخر۔
جب مسلم لیگ کی حکومت تھی تو اس وقت لوگ دعائیں کرتے تھے کہ حزب اختلاف یعنی عمران خان اسی طرح بجلی کی قیمت میں اضافے کیخلاف کنٹینر پر چڑھ کر احتجاج کرتے رہیں، تا کہ بجلی کے نرخ نہ بڑھیں۔ چنانچہ عرصہ دراز تک بجلی کی قیمت میں مسلم لیگ ن کی حکومت چاہتے ہوئے بھی اضافہ نہ کر سکی عوام کی موجیں لگی رہیں ۔ اب یہی صورتحال موجودہ تحریکِ انصاف کی حکومت کو بھی درپیش ہے وہ لاکھ کوشش کے باوجود بجلی کے ریٹ بڑھانے سے ہاتھ کھینچ رہی ہے کیونکہ ایسا کرتے ہی اپوزیشن والے ان کی جان کو آجائیں گے۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے عوام بھی سڑکوں پر ٹائر جلانے اور واپڈا کے دفاتر میں اسی طرح توڑ پھوڑ کرتے نظر آئیں جس طرح مسلم لیگ کے دور میں کرتے تھے۔ یوں تبدیلی کی بدنامی ہوگی۔ اب گذشتہ روز آئی ایم ایف کے شدید اصرار اور حکومت کی اپنی خواہش کے باوجود ایک بار پھر وزیرخزانہ کی زیرِ صدارت اجلاس میں عوامی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے حکومت نے بجلی کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ ایک ہفتے کے لئے موخر کر دیا ہے۔ اب اگر عوام اور اپوزیشن کا دباؤ اسی طرح بر قرار رہا تو موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح یہ فیصلہ موخر کرتی رہے گی، عوام کی موجیں لگی رہیں گی۔
٭…٭…٭
طبقاتی تقسیم سمجھنے کے لئے بھارتی فلم دیکھیں: جسٹس ثاقب نثار
بات تو فاضل چیف جسٹس نے درست کی ہے مگر جہاں آنکھوں والے خود آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہوں وہاں ان کو بھارتی فلم کیا سمجھا سکے گی۔ طبقاتی تقسیم کے مارے ہمارے عوام خود اس تقسیم کو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے ہر روز صبح سے رات گئے تک۔ طبقاتی تقسیم پیدل سکول جاتے بچوں ، سائیکل پر کام پر جاتے لوگوں، گلی سڑی سبزی خریدنے والوں سے لے کر گاڑیوں میں بیٹھے نوجوانوں اور بچوں کو مہنگے برگر اور پیزا کھاتے اور گوشت کی دکانوں پر لگے رش سے صاف نظر آتی ہے مگر افسوس یہ تماشہ دیکھ کر بھی کسی کی رگ حمیت نہیں پھڑکتی۔ اب بھارتی فلم ہو یا کرش چندر اور منٹو کے افسانے یہ ہمارے ذہنوں پرکوئی دستک نہیں دیتے۔ پاکستان کے ہر شہر میں گندگی بیماریوں اور جہالت کے سائے میں پرورش پاتی بستیوں میں کروڑوں لوگ بے چارگی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ڈربے نما گھروں میں جن کے سامنے گندی نالیاں بہتی ہیں۔ ان کے ننگ دھڑنگ بچے کھیلتے ہیں۔ انہی کے پہلو میں ڈیفنس اور دیگر اعلیٰ رہائشی سوسائٹیاں بھی موجود ہیں جہاں صاف ستھرے بنگلے، گاڑیاں، لان اور ملازمین کی فوج ظفر موج صاحب و بیگم ہی نہیں ان کے بچوں کے بھی اشارے کی منتظر رہتی ہے مگر کیا مجال ہے جو کوئی ادارہ کوئی سیاسی یا دینی جماعت اس تقسیم کو غلط قرار دے کر اس کو بدلنے کی بات کرے الٹا یہ سب اسے خدائی تقسیم قرار دے کراس کے درست ہونے کے فتویٰ دیتے ہیں تاکہ محروم طبقے والے اسے خدا کا فیصلہ سمجھ کر قبول کریں اور کوئی بغاوت یا انقلاب کی راہ نہ دیکھیں۔
٭…٭…٭
حکومت سندھ نے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کی تجویز مسترد کر دی
امید ہے اب مرکزی حکومت کو بھی آرام آ گیا ہوگا۔ بلوچستان والے بھی یہ تجویز تسلیم کرنے کو تیار نہیں خیبر پی کے میں بھی اس پر شدید اختلافات ہیں۔ اصل میں حکومت کا ارادہ تھا کہ کراچی میں مقیم غیر ملکی مہاجرین کو شہریت دینے کا ایسا ہے تو یہ بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کیونکہ کراچی پہلے ہی بدامنی کا شکار ہے۔ وہاں ابھی تک سندھی اور مہاجر یعنی اردو بولنے والوں کے اختلافات کی خلیج پاٹی نہیں جا سکی۔
پہلے وہاں سے منظم طریقے سے پنجابیوں کو کنارے لگایا گیا۔ مگر جلد ہی ان کی جگہ پٹھانوں نے لے لی جس میں افغان مہاجرین نے بھی اپنا وزن ڈالا تو کراچی سندھی، مہاجر اور پٹھانوں کی تکون میں پھنس گیا۔ حکومت سندھ اس خوف سے ہی نہیں نکل سکی کہ اگر کراچی میں مقیم لاکھوں افغانوں ، برمیوں، کو بھی شہریت دی گئی تو پھرکیاہو گا۔ افغان اور برمی مہاجر بے شک کئی سالوں سے یہاں آباد ہیں مگر ہیں تو مہاجر انہیں شہریت دینا ایک نئے فتنہ کو جگانے کے مترادف ہے۔ کراچی پہلے ہی بہت سے تجربات کی زد میں ہے۔ اسے مزید اکھاڑہ نہ بنایا جائے یہی کراچی والوں کے لئے بہتر ہو گا۔ افغان مہاجر پاکستان اور افغانستان میں آسانی سے آتے جاتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ دونوں طرف سے مزے لوٹتے ہیں۔ یہاں آ کر وہ پٹھان بن جاتے ہیں وہاں جا کر افغان کہلاتے ہیں۔ کم از کم ایسے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والوں کو شہرت دینا درست نہیں ہوگا۔ رہی بات بنگالیوں کی تو پہلے سے ہی پاکستانی ہیں ان کی شہریت میں کوئی حرج نہیںکیونکہ مشرقی پاکستان سے آنے والے بہرحال پاکستانی ہی ہیں۔
٭…٭…٭
بھاری بستوں سے بچوں کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ پشاور ہائیکورٹ
تو اس سے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ تو انہی کتابوں سے ماہانہ لاکھوں روپے کمیشن کماتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے بچوں کے والدین کو لوٹتے ہیں۔ معلوم نہیں دوسری یا تیسری کلاس کے بچوں پر درجنوں کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ لاد کر یہ نجی تعلیمی ادارے انہیں کون سا عالم یا سائنسدان بنانے کے چکروں میں ہیں۔ یہی حال پانچویں چھٹی تا نہم دہم کی کلاسوں کا ہے۔ ان کلاسوں کے بچے جب یہ بھاری بھر کم بیگ اٹھا کر جسے ہم بستہ کہتے ہیں سکول جاتے ہیں تو یوں لگ رہا ہوتا ہے جیسے کوئی مزدور بھاری وزنی بوری اٹھا کر لے جا رہا ہو۔ ان پھول جیسے بچوں کی کمر اس وزن سے دہری ہو رہی ہوتی ہے۔
اس وزن سے اکثر بچے ہڈیوں کی تکلیف میں اور دیگر جسمانی عوارض کا شکار ہوتے ہیں والدین پر علیحدہ مالی بوجھ پڑتا ہے۔ کتاب سادہ ہلکی اور کم قیمت ہوں تو چلیں بچہ پڑھ بھی لے۔ اتنی بھاری بھر کم کتابیں پڑھانے کے لئے تو ان سکولوں کے اساتذہ کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا نہ ہی خود انہوں نے یہ کتابیں پڑھی ہوتی ہیں۔ اگر کتابوں کی بجائے تعلیمی ادارے تعلیم پر علم کے معیارپرتوجہ دیں تو زیادہ بہتر ہے مگر اس طرح ان سکولوں کے مالکان کی جیبیں اور تجوریاں کون بھرے گا۔ کیوں یہاں تعلیم فروخت ہوتی ہے علم بانٹا نہیں جاتا۔