عہد حاضر کے بااثر اور ممتاز عالم دین اور سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کا ناقابل برداشت رویہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک قرآن اور اسلام پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادیان کے تقابلی مطالعہ، بالخصوص ہندو مت، بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت کے بارے میں ان کا علم قابل رشک ہے بلکہ اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ ایک اور بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کسی لحاظ سے بھی متعصب نہیں۔ انسانیت کا درد رکھنے والے بلکہ ان کا مذہب ہی انسانیت ہے اور اسی کا پرچار کرتے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر اور خطبات میں دوسرے مذاہب کا بڑے احترام سے ذکر کرتے ہیں۔ تمام مذاہب کے لوگوں کو امن اور یگانگت سے رہنے کی تلقین کرتے ہیں حتٰی کہ جو ہندو پروہت، پنڈت اور گیانی (سکالر) بین المذاہب امن اور یکجہتی کے پرچارک ہیں ان میں سے اکثر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی مذہبی بصیرت کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کی دینی فراست کسی مذہب کے پیروکار کی دل آزاری نہیں کرتی۔
انڈیا کو ڈاکٹر ذاکر نائیک ایسے مایہ ناز نابغہ اسلامی سکالر کے بھارتی ہونے پر فخر ہونا چاہئے جو 18 اکتوبر 1965ء کو ممبئی (بھارت) میں پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹری کی تعلیم پائی اور ایم بی بی ایس کی ڈ گری حاصل کی۔ ذہنی رجحان غالب آیا تو انہوں نے پریکٹس کرنے کی بجائے عالم دین بننا پسند کیا۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے طور پر اسلام اور عربی میں اتنی مہارت حاصل کی کہ مدرسوں کے پڑھے ہوئے نامور علمائے دین بھی پیچھے رہ گئے۔ آج بھارت اور دنیا بھر میں ان کے مسلم اور غیر مسلم مداحوں اور عقیدت مندوں کی تعداد کروڑوں سے متجاوز ہے۔ وہ عالمی شہرت کے حامل مسلمان سکالر ہیں وہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (آئی آر ایف) کے بانی اور اس کے صدر ہیں۔ یہ ایک خالص علمی و تحقیقی ادارہ ہے جس کا دہشت گردی سے دور دور کا تعلق بھی نہیں بلکہ وہ دنیا کے چند ان مسلم سکالروں میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں جو ’’جہاد‘‘ کی ایسی تعبیر کرتے ہیں اور دہشت گردوں اور دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
1991ء میں دعوت کا آغاز کیا اور آئی آر ایف یعنی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ ان کی اہلیہ محترمہ فرحت نائیک خواتین کے شعبے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ادارے کے تحت ممبئی میں اسلامک انٹرنیشنل سکول اور رفاہی تنظیم یونائیٹڈ اسلامک ایڈ کی بنیاد رکھی وہ آئی ای آر اے کے بورڈ ممبر اور مشیر بھی ہیں۔ 2010ء میں ان کی برطانیہ اور کینیڈا میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ ان کی کینیڈا داخلے میں پابندی میں بھارت نے ایک ایشیائی نژاد صحافی کو استعمال کیا جس نے پاکستان کے خلاف مفسدانہ اور مبالغہ آمیز پراپیگنڈہ کیا اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خیالات اور افکار کو غلط اور سازشی رنگ دیا۔ اظہار بیان پر حملہ کی بناء پر اس پابندی کی مخالفت ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس رولنگ کو عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کے ذریعے چیلنج کرنے کی کوشش کی مگر ان کی یہ درخواست 5 نومبر 2010ء کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی گئی۔ یوں انہیں اپنی انڈین ہائی کورٹ نے ہی انصاف دینے سے انکار کر دیا۔
ڈاکٹر نائیک اپنے قائم کردہ ’’پیس ٹی وی نیٹ ورک ‘‘ کے ذریعے علم کی کرنیں بکھیر رہے تھے ان کا یہ ٹی وی چینل تمام انسانیت کے لئے انصاف ،اخلاقیات ، مذہبی رواداری اور دانش کی تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہا تھا مگر بھارتی حکومت کے ایک مسلمان کے بارے میں تعصب کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس نے 2012ء میں اس چینل پر محض اس لئے پابندی لگا دی کہ وہ اسلام کی خدمات انجام دے رہا تھا یہ ایک ایسا ’’ جرم ‘‘ تھا جو فرقہ پرست ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ سے برداشت نہ ہو سکا اور حکومت پر دبائو ڈال کر پیس چینل کو بند کروا کر ہی دم لیاہ ایک بھارتی صحافی کے مطابق ممبئی پولیس نے فرقہ پرستی پھیلانے کے جھوٹے اور گھٹیا الزامات لگا کر ڈاکٹر نائیک پر اجتماعات سے خطاب کرنے پر بھی پابندی لگا دی ۔ یوں بین المذاہب یکجہتی کے بہت بڑے علمبردار کی آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ انڈین سیٹلائٹ نے پیس ٹی وی کے پروگراموں کو نشر کرنے سے انکار کر دیا۔
بھارتی حکومت نے 2016ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو غیر مقیم انڈین( این آر آئی ) قرار دے دیا۔ تاہم اس آڑے وقت میں سعودی عرب نے مہربانی کی اور انہیں مملکت کی شہریت (بہت کم کسی کو دی جاتی ہے ) وے وی 18جولائی 2017 میں بھارتی حکومت نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے ) کی سفارش پر ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا۔ 28 جولائی کو انہیں قانون شکنی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے اثاثوں کی ضبطگی کا عمل شروع کر دیا جو کہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی تھی ۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک ان دنوں ملائیشیاء میں مقیم ہیں ۔ جہاں انہیں شہریت دے دی گئی ہے ۔ مگر نریندر مودی کی حکومت نے اب بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور انڈین انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹوریٹ ( ای ڈی ) ملائیشیا سے ان کی حوالگی کے لئے دبائو ڈال رہا ہے، تاہم وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھارت کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ کسی معقول وجہ کے بغیر انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ در حقیقت ڈاکٹر نائیک کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا، کسی قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ دوسری طرف انتہا پسند ہندو مذہبی تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کو حکومتی سائے میں ہر قسم کی دہشت گردی کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ خدارا! ذرا پُر امن اور بین المذاہب یکجہتی کی کوششوں کا آر ایس ایس کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے تقابل تو کریں ۔ انصاف کا اس طرح خون ہوتا دیکھ کر رونا آتا ہے۔میں وزیر اعظم نریندر مودی اور دوسرے بھارتی لیڈروں سے پوچھتا ہوں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اثاثے کیوں ضبط کئے گئے ہیں اور انہیں کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے ۔ وزیراعظم مودی نے ہمیشہ عام انتخابات میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی زبان بولی اور مسلم دشمنی کو موضوع بنایا اور داد خطابت دی ہے اور اس بار تو اس کا اولین ہدف صرف ڈاکٹر ذاکر نائیک ہی نہیں بھارت میں بسنے والے سارے مسلمان اور پوری مسلم امہ ہے۔
اگرچہ مجھے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے شخصی طور پر ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن میں نے ان کی تقاریر سنی ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں اسلام اور اسلام کی تعلیمات بارے دل نشین انداز میں بڑی مدلل گفتگو کرتے ہیں، میں نے ان کی جتنی بھی تقریریں سنی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ عالمی امن، اور مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں یکجہتی کی بات کرتے ہی سنائی دئیے۔ انہوں نے خود کش حملے کو بڑی شد ومد سے غیر اسلامی فعل قراردیا ہے۔ انہوں نے جب بھی لب کھولے، دہشت گردی کے خلاف ہی بولے۔ جو لوگ الزام لگاتے ہیں، کہ اسلام کسی دوسرے مذہب کو برداشت نہیں کرتا، ڈاکٹر ذاکر نائیک نے انہیں مسکت جواب دیا اورکہا، اسلام کرپشن، امیر، غریب، کالے گورے میں تفریق، ناانصافی، بدکاری، شراب اور دیگر تمام برائیوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں ہمیشہ یہی کہا کہ اسلام سے زیادہ کوئی مذہب رواداری کا حامل نہیں، اسی طرح جہاں تک انسانی اقدار کا تعلق ہے، اس باب میں بھی اسلام کو دوسرے مذاہب پر فوقیت حاصل ہے۔ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، اگر، کوئی مسلمان عورت، حجاب یا برقعہ پہن لے، تو کہا جاتا ہے کہ اس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے لیکن اگر یہی حجاب وغیرہ راہبہ پہن لے تو وہ احترام، عفت اور پاکبازی کی علامت میں بدل جاتا ہے، کیا وہ غلط کہتے ہیں۔ انہوں نے اسلام کے بارے میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے الزامات کو بھی بڑے زور دار دلائل کے ساتھ رد کیا ہے اور کہا کہ ان الفاظ کی غلط تعبیرکی گئی ہے، بنیادی طور پر یہ مغرب کے مفروضے ہیں۔
ایک دفعہ ان سے دہشت گردی پر اظہار خیال کے لئے کہا گیا، تو انہوں نے جواب دیا: دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہٹلر تھا چار کروڑ 60 لاکھ یہودیوں کو گیس کی بھٹیوں میں جھونک کر زندہ جلا ڈالا، جب ان سے قتل کے بارے میں پوچھا گیا کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے تو انہوں نے قرآن مجید کی ایک آئت مبارکہ کا حوالہ دیا۔ جس میں کہا گیا، اگر کوئی کسی بے گناہ مسلم یا غیر مسلم کو قتل کرتا ہے تو وہ گویا پوری انسانیت کا قاتل ہے،، لہذا اس حکم الٰہی کی موجودگی میں کوئی مسلمان کسی بے گناہ انسان کی جان لے سکتا ہے؟ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں غیر مذاہب والوں سے نفرت اور امتیازی سلوک کی کارروائیاں عام ہیں، جہاں آر ایس ایس نے جسے حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ بولنے کی آزادی تک چھین لی ہے۔ میں وزارت خارجہ اور وزارت مذہبی امور سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے کو اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے سامنے اٹھائے جو مذہبی بنیادوں پر ، ڈاکٹر ذاکر نائیک سے بھارتی حکومت کے ظالمانہ سلوک کی مذمت کرے۔ میں تمام بھارتیوں سے بھی اپیل کروں گا کہ آپ بھارتی حکومت سے احتجاج کریں، جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اس لئے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے ہے کہ وہ ایک ممتاز اور بے ضرر مسلم سکالر ہے اور جس نے تمہاری دھرتی پر جنم لیا۔کیا بھارتی حکومت، راشٹریہ سیوک سنگھ کے سربراہ کو بھی جبراً ملک بدر کرے گی، جو صحیح معنوں میں ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ (ترجمہ: حفیظ الرحمان قریشی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024