آئی ایم ایف سے پاکستان کی داستان ِعشق بڑی رنگین وسنگین ہے جس کے قرض کی کڑی شرائط کے حوالے سے عجیب وغریب اور ناگوار کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تمام معاہدات کی تفصیلات مانگی جا رہی ہیں جس کا بظاہر اقتصادی پیکیج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے قرض کی فراہمی کیلئے نیا آئینی پیکیج تجویز کیاہے۔ 18ویں ترمیم میں مرکز سے طاقت کا ارتکاز ختم کرنے کیلئے تمام بنیادی اختیارات اور بجٹ کا بیشتر حصہ صوبوں کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کے ماہرین چاہتے ہیں کہ وفاق کا بجٹ 30 کی بجائے کم از کم 50 فیصد کر دیا جائے۔ اسکے علاوہ چند متنازعہ ترامیم کی تجویز بھی پیش کی جارہی ہے۔ شاید اسی لئے اسد عمر آئی ایم ایف بیل آوٹ پیکیج کے حوالے سے بہت زیادہ پر جوش نہیں ہیں کہ ان کڑی اور ناروا شرائط تسلیم کرکے حکومت چلانا ممکن نہیں ہو گا۔ تحریک انصاف پہلی حکومت نہیں جو آئی ایم ایف کے پاس گئی۔ اب تک 18 آئی ایم ایف پروگرام لئے جا چکے۔ 22 سمجھوتے ہوئے۔ پی پی پی ادوار میں 2 معاہدے ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) نے پروگرام لئے۔ فوجی حکومتیں سات بار آئی ایم ایف پروگرام لینے پر مجبور ہوئیں۔
جنرل ایوب خان نے دو مرتبہ قرض لیاجس کی کل مالیت 112.5 ملین ڈالر تھی۔ بھٹو مرحوم نے 1977 تک تین مرتبہ کل قرض 230 ملین ڈالر قرض لیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے دو مرتبہ 2 ارب ڈالر قرض لیا تھا۔ بے نظیر بی بی شہید نے تین مرتبہ رجوع کرکے 1 ارب 821.3 ملین قرض لیا۔دوسری مرتبہ برسراقتدار آتے ہی نوازشریف نے 1997 میں 1.13 ارب ڈالر کا سب سے بڑا یکمشت قرض لیا۔ جنرل مشرف نے دو مرتبہ 1 ارب 465 ملین ڈالر قرض لیا زرداری صاحب آئے اور قرض لینے کا 7ارب 20 کروڑ ڈالرنیا ریکارڈ قائم کردیا۔اور پھر جناب نوازشریف نے اپنے 4 سالہ دور اقتدار میں 29 ارب 30 کروڑ ڈالر قرض لیکر پاکستان کو ہمیشہ کیلئے گھٹنوں کے بل گرانے کے مکمل انتظامات کردئیے تھے۔ 55 ارب ڈالر کے قرض کا بیشتر حصہ ہمارے منتخب نمائندوں نے لیا تھا جرنیلوں کی کارروائی بڑی محدود رہی لیکن پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کے پاس جانا جرم بنا کر پیش کیاجارہا ہے۔
سرمایہ کسے اچھا نہیں لگتا۔ سرمایہ کاری لانے کیلئے ہر حکومت کے نعرے دلفریب اور دل موہ لینے والے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سمیت سب ہی اس آس اور امید میں رہے کہ غیرملکی سرمایہ کار نوٹوں کی بوریاں بھر کر لائیں گے اور ہماری چاندی ہوجائیگی رہے سمندر پار بسنے والے پاکستانی وہ تو گھڑے کی مچھلیاں ہیں جناب عمران خان کی ایک اپیل پر 12 ارب ڈالر کا ڈھیر لگا دینگے لیکن ایسا نا ہوسکا جس کی وجوہات کا سب سے زیادہ خود جناب عمران خان کو علم ہے اور اب ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دست گدا پھیلائے ہوئے آئی ایم ایف کے دروازے پر سوالی بنے کھڑے ہیں۔ لیکن اصل سوال تو سونے کی چڑیا کے شکاری کیلئے ترغیب کا ہونا ہے۔ سرمائے کی چڑیا تو جال میں تب ہی پھنس سکتی ہے جب اسکے دانے دنکے کا مناسب انتظام ہو۔ نو من تیل ہو نہ رادھا ناچے، اس چکر سے نکلے بغیر کیسے بیل منڈھے چڑھے گی۔ سرمایہ کاری کیلئے بنیادی عوامل ٹھیک کرنا شرط اول یا خشت اول ہے۔
دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری فی الوقت خطرے کو خود مول لینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ بقائمی ہوش وحواس سرمایہ کاری کرنیوالا ایسے ملک میں اپنا پیسہ کیوں جھونکے گا جس کی اپنی کرکٹ ٹیم میچ متحدہ عرب امارات (یواے ای) میں کھیلے۔ جب تاثر یہ ہو کہ دنیا کا کوئی ملک اپنی کرکٹ ٹیم میچ کیلئے پاکستان بھجوانے پر آمادہ خاطر نہ ہو؟ حتٰی کے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے ساتھ معاملات طے کرنے کے تمام اجلاس بھی دوبئی اور انڈونیشیا کے جزائر بالی میں ہوئے۔محض دہشت گردی ہی وجہ نہیں۔ دشمن اور دوست ہم سے دوری اختیارکرتے ہیں تو اسکی وجوہات اور بھی ہیں۔ عالمی بنک کی 2018ء کی درجہ بندی میں کاروبارکرنے کے انڈیکس میں پاکستان کی مجموعی پوزیشن 147ہے۔کسی ملک میں کاروبار کرنا کتنا آسان ہے، اسے جانچنے یا جاننے کیلئے ایک سے 190تک کا پیمانہ وضع کیاگیا ہے۔ کسی ملک میں کاروبار کرنا سہل ہے۔ یہ معلوم کرنے کیلئے اس ملک میں چند عوامل کو دیکھاجاتا ہے۔ وہاں ضابطوں، قاعدے قانون کا کیاچلن ہے؟ مقامی سطح پر کاروبار شروع کرنے کی آزادی کس قدر ہے؟ کمپنی یا فرم کی معاشی سانس چلانے کیلئے کیا سہولیات اور آزادیاں میسر ہیں؟ ایک ایک کرکے مختلف موضوعات کو دس درجوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور اس میں سے ہر ایک میں گنتی کے ہندسے کسی بھی ملک میں سازگار کاروباری ومعاشی ماحول کا تمام کچا چٹھہ کھول دیتے ہیں۔ اس پیمانے کو جان کر ہی دیگر ممالک کے سرمایہ کار پیسہ لگانے یا کاروبار کرنے کا اراداہ باندھتے یا پھر دور ہی رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
پاکستان کیلئے اس پیمانے پر نظرڈالیں تو صورتحال کچھ زیادہ دل خوش کن نہیں۔ پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کے پہلے درجے میں ہمارا تعارف 142ویں نمبر سے کرایاگیا ہے۔ دوسرے نمبر پر تعمیراتی اجازت ناموں کے درجے میں ہم 141ویں مقام پر ہیں۔ تیسرا نمبر بجلی کے حصول ہے اور اس میں 167 کا ہندسہ ہمارا چلن دکھاتا ہے۔ چوتھا نمبر جائیداد کے اندراج کا ہے اور یہاں ہم 170 ویں نمبر پر ہیں۔ پانچواں حصول قرض کا نمبر ہے اور اس میں 105ویں پوزیشن ہماری ہے۔ چھٹا نمبر اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ سے متعلق ہماری کارکردگی سے متعلق ہے اور یہاں ہمارے نام کے آگے 20 کا ہندسہ درج ہے۔ ٹیکس ادائیگی کا شمار ساتویں نمبر پر ہے اور اس درجے میں ہم 172ویں نمبر پر ہیں۔ آٹھواں نکتہ سرحدات سے باہر تجارت کے بارے میں ہے اور پاکستان اس درجے میں 171ویں نمبر پر ہے۔ نویں نمبر پر معاہدات کے اطلاق یا عمل درآمد کا معاملہ ہے اور اس میں ہم 156ویں نمبر پر ہیں۔ دسویں اور آخری درجے میں مسائل کے حل کی بابت ذکر ہے اور ہمارا نمبر اس معاملے میں 82نمبر پر ہے۔ اعدادوشمار کے اس نقشے سے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ پاکستان میں کاروباری یا معاشی سرگرمیوں میں سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کی اصل وجہ دہشت گردی نہیں بلکہ کاروبار اور معاش کے امور انجام دینے میں آنیوالی دقتیں، پریشانیاں اور پیچیدگیاں ہیں۔ کام کرنا کار دارد ہے۔ کام کرنے میں یہاں رکاوٹیں کتنی ہیں، یہ اس داستان کی تفسیر ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیتے۔
اس میں ایک دلچسپ پہلو ہمارے نجی شعبے کے کردار کا بھی ہے۔ ایک جائزہ اس کا لیاجائے تو اسکے عوارض بھی کوئی حوصلہ افزائی کا ماحول پیدا نہیں کرتے۔ بدعنوانی کے سیلاب میں ہمارے کاروباری طبقات ایمانداری سے پورا ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ بلوں میں ہیر پھیر کی کہانیاں بھی کوئی راز نہیں۔ صنعتی شہروں میں بجلی کے کارندوں، افسران اور دیگر افسران وعملہ کی ملی بھگت سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں۔ کون سا خسارہ اور کون سا ملکی نقصان وہاں صرف اپنا فائدہ اور ماہانہ آمدن کی سوچ پر ہی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ بجلی، پانی، گیس غرض ہر بل میں چکربازی ہوتی ہے۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024