ملک میں پہلی بار ضمنی الیکشن اس حال میں ہوئے کہ یوں لگتا تھا جیسے حکمران پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کا تعلق اپوزیشن سے ہو۔ ورنہ کیا مجال کہ ضمنی الیکشن میں کسی حکومتی امیدوار کو انتخابی مہم بھی چلانے کی زحمت کرنی پڑے۔ اسے تو معلوم ہوتا تھا کہ بس جیتنا ہے اور اس کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لئے پٹواریوں،تھانیداروں اور ڈپٹی کمشنروں کی فوج ہر ووٹر کے سرپہ منڈلاتی رہتی تھی۔ ان کی جان تب چھوڑتی جب حکمران پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا اعلان ہو جاتا بلکہ ا سکے بعد ڈھول باجے والوں کی فراہمی بھی ان کے ذمے ہوتی ا ور مٹھائیوں کے ٹوکرے بھی انہی کی طرف سے نچھاور کئے جاتے۔
حالیہ ضمنی الیکشن میں ایسی کوئی بدعت دیکھنے میں نہیں آئی، نہ کسی کے حلقے میں وزیر اعظم آئے، نہ وزیراعلی اور نہ کوئی وزیر۔ کہیں اعلان نہیں ہوا کہ علاقے میں راتوں رات موٹر وے بن جائے گی، نہ یہ اعلان سنائی دیا کہ بجلی گھر راتوں رات چلا دیا جائے گا، نہ کسی نے دودھ اور شہد کی نہریں بنانے کی خوش خبری سنائی، بس حکومتی امیدواروں کو ایک ایک دروازے پر خود ہی دستک دینا پڑی۔
ایک زمانے میں ایوب خاں نے صدارتی الیکشن لڑا، مقابلے میں بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح تھیں،۔ انہیں مادر ملت کا خطاب میرے مرشد مجید نظامی نے دیا، ایوب خان نے لاکھ کوشش کر دیکھی کہ مجید نظامی یہ خطاب واپس لے لیں اور اپوزیشن یہ خطاب فاطمہ جناح کے لئے استعمال نہ کرے۔ مگر مجید نظامی کا سر کون جھکا سکتا تھا۔ ناچار ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو ایک نرالی ترکیب سوجھی کہ ملک بھر کے یونین کونسل ارکان کو اغوا کر لیا جائے اور ووٹ ڈلوانے کے بعد چھوڑا جائے، اب ایوب خاں کو کون ہرا سکتا تھا۔ مگر وہ جیت کر بھی ہار چکا تھا کیونکہ اس کا سامان بھی ان کے چہیتے وزیر بھٹو ہی نے کیا تھا جو وزیر خارجہ تھے اور انہوں نے رائے دی کہ پاکستان خاموشی سے کشمیر میں مجاہدین داخل کر دے۔ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسلئے یہ جنگ یہیں تک محدود رہے گی مگر بھٹو کا دکھایا ہوا خواب انتہائی ڈراﺅنا ثابت ہو ا اور بھارت نے بین الاقوامی سرحد پر جنگ شروع کر دی جس میں پاکستان کو دفاع کرنے کے لئے جانیں دینا پڑیں۔ اس جنگ سے ایوب خان کمزور ہو چکا تھا اور اس کے لئے کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اپنے کمانڈر ان چیف جنرل یحیٰی خان کو کمان سونپ دے اور خود چلتا بنے۔ اس شخص نے الیکشن تو کروائے مگر اس کے مینڈیٹ کے مطابق اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل نہ کیا اور الٹا ان پر فوج کشی کر دی، بھارت اس موقع کی تاک میں تھا ۔ اس نے مکتی باہنی کھڑی کی اور پاکستان کو دو لخت کر کے رکھ دیا۔ یہ ہے الیکشن کی ایک گھناﺅنی تصویر۔
ایک ضمنی الیکشن لاہور کے حلقہ چھ میں ہوا اور یہاں پانی پت سے بڑا معرکہ لڑا گیا۔ وفاق میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلی کی کرسی پر برجمان تھے۔ ضمنی الیکش کی مہم ایسے زوروں پر چلی کی زمین کانپ کانپ جاتی تھی۔ وفاقی حکومت علاقے میں بجلی کے کھمبے اور سوئی گیس کے پائپ پھینک کر جاتی اور رات کی تاریکی میں پنجاب پولیس اور ن لیگی متوالے یہ کھمبے اور پائپ موقع سے اٹھا لے جاتے۔
ن لیگ اور پی پی پی کے دور حکومت میں جب بھی کوئی ضمنی الیکشن ہوا تو حکمران پارٹی ہی نے میدان مارا کیونکہ اسکے مقابلے میں کسی چڑیا تک کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔
اب پی ٹی آئی کی وفاق، پنجاب اور خیبر پی کے میں حکومت ہے تو ماضی کے تجربات کے پیش نظر یہاں سے اسی پارٹی کے امیدواروں کو جیتنا چاہئے تھا مگر جب عمران خان اعلان کر چکے تھے کہ وہ کبھی اداروں کے معاملات میں دخل نہ دیں گے تو وہ روٹین کی گورننس کے کاموں میں مصروف رہے۔ ان کی حکومت نے معیشت اور مالیات کی بیماریوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور انہوںنے آئی ایم ایف سے مذاکرات کا فیصلہ کیا اور وزیر خزانہ اس مقصد کے لئے انڈونیشیا چلے گئے۔ ادھر پنجاب حکومت صوبے کا بجٹ بنانے میں مصروف رہی۔ یہ کام زیادہ اہم تھے، الیکشن کا کام الیکشن کمشن کو کرنا تھا اور سب نے دیکھا کہ ماضی کے مقابلے میں الیکشن کمشن نے سرگرم کردار ادا کیا حالانکہ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے مگر نادرا تو حکومت کی نگرانی میں ہے، اس لئے میرا خیال ہے کہ حکومت نے نادرا کو ہدایت کہ کہ وہ اپنے آر ٹی ایس نظام کو چالو رکھنے کے لئے خود الیکشن کمشن میں ڈیوٹی ادا کرے، عام انتخابات میں نادرا نے آر ٹی ایس بنا کر الیکشن کمشن کو دے دیا تھا، اسے چالو رکھنے کی ذمے داری الیکشن کمشن کی آئی ٹی ٹیم کی تھی جو نکمی ثابت ہوئی مگر اس بار نہ آر ٹی ایس بند ہوا، نہ آر ایم ایس بند ہوا بلکہ سمندر پار ووٹروں کے سسٹم پر ہیکروں کے ہزار ہا حملے ہوئے جنہیں نادرا کے ماہرین نے ناکام بنا دیا۔
پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن کو عزت اور بے عزتی کا سوال نہیں بنایا۔ عمران خان نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ کم از کم وہ اپنی چھوڑی ہوئی سیٹیں تو واپس لینے کی کوشش کرے۔ کونسا وزیراعظم ہے جو یہ طعنہ سنے کہ اس سے اس کی سیٹ چھن گئی۔ لاہور میں ایک نہیں دو سیٹیں ن لیگ لے گئی اور اس نے دھمال ڈالی مگر یہ نہ سوچا کہ ان کی جیت کی اصل وجہ حکومت وقت کی عدم مداخلت کا رویہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو دو چار سیٹیں چلے جانے کا کیا نقصان، اس کی حکومت تو بن چکی اور اب سے کوئی گرانے کی پوزیشن میں نہیں مگر ایسی بات ہوتی تو وزیراعظم ضمنی الیکشن کے نتائج پر غور کے لئے اعلی سطحی اجلاس نہ بلاتے۔ اس اجلاس میں بھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ پارٹی کے وزرا یا وزرائے اعلی نے سرگرمی کیوں نہ دکھائی بلکہ ان کا زور اس بات پر تھا کہ حکومت گیس، بجلی اور ٹیکسوں کے جو سخت فیصلے کر رہی ہے، ان پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے کہ یہ فیصلے عارضی تکلیف کا باعث تو ضرور ہیں مگر ان کے دور رس اور مثبت نتائج نکلیں گے۔ چنانچہ اس اجلاس کے اگلے ہی روز وزیراطلاعات فواد چودھری نے بجلی کی مہنگائی کا کچا چٹھا کھولا اور ثابت کیا کہ اس کی مہنگائی اور بحران کی ذمے داری پچھلی حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے نعرہ تو سستی بجلی کا لگایا مگر دنیا میں سب سے مہنگی بجلی کے پلانٹ لگائے۔ اب حکومت ان منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کروائے گی تاکہ ساری قلعی عوام کے سامنے کھل جائے کہ ان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سہرا کس کے سر سجتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اگر ضمنی الیکشن جیتنے ہوتے تو اسے پانی، بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ بڑھا کر ووٹروں کو ناراض کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کو کسی وقتی فائدے سے غرض نہیں، نہ اسے اپنا مفاد عزیز ہے بلکہ وہ قوم اور ملک کے بارے میں سوچتی ہے اور انہی کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی دور رس پالیساں بناتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024