چیف جسٹس ثاقب نثار کے یہ ریمارکس 50لاکھ گھروں کی تعمیر خالہ جی کا گھر نہیں ‘‘ حکومت کی مخالفت یا طنز نہیں بلکہ ایک بڑے چیلنج کی نشاندہی ہے تحریک انصاف کی جانب سے اقتدار میں آ کر ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر بنانے کے اعلان سے عوامی سطح پر اور بالخصوص بہت غربت کی سطح پر رہنے والوں میں غلط فہمی یا خوش فہمی پیدا ہوئی کہ یہ 50لاکھ گھر غریب لوگوں کو حکومت کی جانب سے مفت فراہم کئے جائینگے جبکہ وزیراعظم عمران خان اور حکومتی عہدیداروں کیمطابق حکومت کی فراہم کردہ اراضی پر نجی شعبہ بطور سرمایہ کاری یہ مکانات تعمیر کرکے قیمتاً فروخت کریگا ان گھروں کی خریداری کیلئے بنک قرضے جاری کرکے جس کی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کریں گے جبکہ قرضے اور اس پر سود کی ادائیگی برس ہا برس خریدار کا سر درد رہے گی۔ ان گھروں کے حوالے سے غلط فہمی یا خوش فہمی کا اندازہ اندرون سندھ ’’سومرو گوٹھ‘‘ میں لوگوں کی گفتگو سے ہوا۔ جو قرض اور سود کی ادائیگی کے جھنجھٹ سے بے خبر ہیں خوشی سے سرشار نظر آئے کہ اب انہیں انکے بیوی بچوں کو جھگیوں اور جھونپڑیوں کی بجائے پختہ گھروں میں رہائش نصیب ہوگی۔ مہران یونیورسٹی جامشورو کا طالب علم علی احمد سومرو مجھے اپنے گائوں لے گیا تھا۔ اس خوش فہمی یا غلط فہمی اس سوچ کا دروازہ کھول دیا کہ جب ان پر اصل حقیقت واضح ہوگی تو کس درجہ مایوسی ہوگی۔ دیکھا جائے تو یہ خوش فہمی یا غلط فہمی صرف سومرو گوٹھ کے لوگوں کی ہی نہیں بلکہ کراچی سے پشاور اور تفتان سے گوادر تک جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے کروڑوں افراد کو مبتلا کئے ہوئے ہے۔
یہ گھر خریدنے کیلئے نادرا سے 250روپے میں فارم لے کر رجسٹریشن کرانی ہوگی ۔ غریب اور ان پڑھ لوگ یہ فارم پر کرانے کی آزمائش سے گزریں گے ۔ فرض کر لیا جائے 50لاکھ گھروں کیلئے ڈھائی سو روپے فی کس کے حساب سے 50لاکھ افراد بھی فارم جمع کرا دیں تو یہ کل رقم ایک ارب پچیس کروڑ روپے بنتی ہے اور مزید فرض کریں 20کروڑ پاکستانیوں میں سے زیر کفالت بیوی بچے اور والدین نکال کر دس کروڑ یہ فارم جمع کرا دیں تو حاصل شدہ رقم 25ارب روپے ہوگی اگر پانچ مرلہ کے ایک گھر کی تعمیراتی لاگت کم از کم 25 لاکھ روپے ہو (سیمنٹ ، سرئیے ، اینٹوں کی قیمت میں مزید اضافہ کے امکانات اپنی جگہ موجود ہیں ) تو 50لاکھ گھروں کی تعمیراتی لاگت تقریباً 12کھرب 150ارب روپے بنتی ہے جبکہ فارموں سے محض 25ارب روپے حاصل ہونگے اور وہ بھی دس کروڑ افراد کے جمع کرانے کی صورت میں ) کیا پاکستان میں ملک ریاض سمیت کوئی ایسا بلڈر ہے جو 12کھرب 150 ارب کی سرمایہ کاری کر سکے ۔ پانچ سال میں 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کیلئے ہر سال دس لاکھ گھر تعمیر کرنے ہونگے۔ جن کی تعمیراتی لاگت 2کھرب 150ارب ہوگی۔ کیا یہ ممکن ہے کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والا بلڈر ( بے شک کئی بلڈر مل کر کنورشم بنالیں ) 25لاکھ میں تعمیر کرکے 25میں ہی فروخت کر دیگا وہ اندازاً کم از کم 35سے 40لاکھ قیمت مقرر کریگا۔ یہ بھی پیش نظر رہے جھگیوں ، جھونپڑیوں اور کرایوں پر رہنے والے ہی اصل بے گھر ہیں مزید یہ بھی پیش نظررہے کہ یہ لوگ کسی بنک سے قرض لیکر کسی ہائوسنگ سکیم میں گھر خریدنے کی استطاعت رکھتے تو جھگی یا جھونپڑی تشین اور کرایہ دار کیوں ہوتے ۔ حکومتی تعمیراتی تخمینہ 180ارب ڈالر ہے ۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہائوسنگ سروے کیمطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں پختہ گھروں کی تعداد 40لاکھ 70ہزار ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے نئے تعمیر ہونے والے گھر اس میں شامل ہیں ۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ملک میں 40لاکھ 70 ہزار گھروں کو بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی بڑا مسئلہ بن ہوئی ہے ہر سال مزید دس لاکھ گھروں کو یہ سب کیسے فراہم کیا جائیگا ۔ یہ بلاشبہ پی ٹی آئی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے اس حوالے سے چیف جسٹس کا ریمارکس ’’ خالہ جی کا گھر نہیں ‘‘ بہت وزنی ہے۔ اور اگر یہ ’’خالی خزانہ ‘‘ بھرنے کی حکمت عملی ہے۔ وقتی طور پر تو لوگوں سے پیسے لئے جائیں پھر دیکھا جائے گا اور اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ چیز جس طرح حکومت کے گلے پڑے گی اس کا اندازہ شاید نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کو قرضہ کی باقاعدہ درخواست کر دی گئی ہے ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اپنی جگہ امریکہ اسکے ذریعہ اپنی بعض شرائط منوانے پر تلا ہے۔ 2015 میں ن لیگ کی حکومت نے غیر ملکی این جی اوز کیخلاف کارروائی کا آغاز کیا موجودہ حکومت یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جو 20برس سے ریاست مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں انکے ذریعہ کے پی کے، بلوچستان اور کراچی میں ریاست مخالف عناصر اور دہشت گردی کو فنڈنگ اور ٹاکس دیئے جاتے تھے انہوں نے نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو ساتھ ملا رکھا ہے ۔ نئی نسل کو ذہنی پرا گندگی کا شکار کرنے کیلئے سکولوں میں نیٹ ورک قائم کرنے کے ساتھ میڈیا کے ایک حصے کو استعمال کر رہی ہیں امریکہ ان کیخلاف کارروائی رکوانے کو رہا آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل کرانے کیلئے کوشاں ہے اور پاکستان کیلئے سب سے مشکل ترین شرط یہ کہ افغانستان میں ہر صورت امن قائم کیا جائے۔ بے شک حکومت کو داخلی و خارجی محاذ پر بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے اس لئے دانش مندی کا تقاضا ہے ایسے اعلانات سے گریز کرے جو اندرونی صورت میں مزید بگاڑ پیدا کر دیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024