پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے ملک میں پیدا ہونے والی کپاس، چاول، گندم اور دیگرفصلات کی پیداوار کا بڑا حصہ پنجاب سے مہیا ہوتاہے۔ فصلات کیلئے قدرتی آفات، مختلف بیماریوں اور بے شمار وبائوں کے حملے کے باعث اکثر کسان کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑتاہے، اس کی سال بھر کی آمدن انتہائی کم درجے پہ آجاتی ہے جبکہ کسانوں نے اسی فصل سے اگلی فصل تک گھر کا چولہا چکی، بیٹی کا جہیز، بیٹیوں کی تعلیم اور اگلے فصل کی تیاری کیلئے رقمیں مختص کررکھی ہوتی ہیں جو ساری چوپٹ ہوجاتی ہیں بے چارا آٹھ آٹھ آنسو روتاہے قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتاہے اورپھر سالہا سال قرضہ ہی اتارتا رہتاہے اس لیے بیماریوں، وبائوں اور قدرتی (زمینی اور آسمانی) آفات کے اثرات اور نقصانات سے بچنے کیلئے کسان کی آمدن کے تحفظ کیلئے حکومتی رہنمائی منصوبے کسان کی معاشی بقاء کیلئے ناگزیر ہیں۔یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ آسٹریلیا کے محقق اور ماہر معیشت ڈاکٹر شبیر احمد اس سلسلے میں کہتے ہیں کسانوں اور زمینداروں کو زراعت سے منسلک طریقوں کی آگاہی سے زرعی انقلاب کے ساتھ کثیر زرمبادلہ کما کر معیشت کو مضبوط کیاجاسکتاہے، ریسرچر ڈاکٹر شبیر احمد اس سلسلے میں پوری لگن اور جذبے کے ساتھ عمل کارفرما ہیں، پاکستان سے محبت کرنے والا ہر انسان انکے کہنے کے مطابق اس زرعی ملک کی زراعت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے سرگرداں ہے، یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی زراعت کی صنعت کو نظرانداز کرکے کبھی ترقی نہیں کرسکتے، ڈاکٹر شبیر احمد یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ آسٹریلیا میں اکنامکس ریسرچ اور ٹیچنگ کے فرائض انجام دے رہے ہیں جو پاکستان اور آسٹریلین یونیورسٹی کے تعاون سے زراعت کے مختلف شعبہ جات میں بہتر کارکردگی لانے میں ریسرچ کررہے ہیں جس کی فنڈنگ اور تحقیق آسٹریلوی حکومت کررہی ہے ان کا اولین مقصد پاکستان میں چھوٹے کسانوں کیلئے قرضوں کی فراہمی اور ان قرضوں کا صحیح معنوں میں بھرپور پیداوار حاصل کرکے کسان اور ملک کو خوشحال بنانا ہے۔یہ تحقیق پاکستان میں سندھ اور خصوصاًپنجاب کے مختلف ضلعوں پر محیط ہے اس تحقیق پہ غور وفکر اور ریسرچ کی مدد سے ہماری حکومت اپنی زرعی پالیسیوں میں تبدیلی لاکر پرانی منفی نتیجہ خیز پالیسیاں ترک کرکے زرعی پالیسی بنانے میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے جس طرح ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اگر ہم اپنی زراعت پہ توجہ منعکس کریں جس طرح حکومت اور وزارت زراعت زرعی ترقی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تو قرضہ جات کی ادائیگی میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ حکومت جس بھی نہج پہ جاکے کام کرنے کیلئے جب تک پالیسیز کا جائزہ لے کر محقیقین کا ایک یونٹ بناکر نئی ترقی یافتہ پالیسیز نہیں بنائی جائیں گی تو ہرسال کسان بھی روتا ہوا ملے گا اور خوشحالی بھی خطرے میں پڑجائیگی۔
قرضوں کی فراہمی آسان اقساط کاشتکار کیلئے ایک انعامی سکیم سے کم نہیں۔ اسی لیے آسٹریلیا اور پاکستان کے مایہ ناز ریسرچر باہمی اشتراک سے اس تحقیق کو انتہائی موثر انداز میں سب کے سامنے لا رہے ہیں۔ اس سے کسانوں کو قرضہ کی باآسانی فراہمی، قرضے کا موثر استعمال اور اچھی پیداوار کا حصول ہوگا۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ خواتین کسانوں کو بھی قرضہ کی فراہمی یقینی بنانے کا ارادہ ہی نہیں بلکہ انہیں زرعی کاروبار کی ترغیب دینا بھی شامل ہے۔ اس آگاہی مہم کا چلانا اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا کہ ایک غریب گھرانے میں چولہے کی آگ کا جلنا ضروری ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں زراعت سے منسلک غریب مرداور عورت کیلئے چھوٹے قرضوں کی فراہمی اقتصادی ترقی کیلئے ایک مثبت قدم اور قابل قدر ترویج ہے۔ دوسری صنعتوں کی طرح زراعت کی سرمایہ کاری بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سلسلے میں قرضوں کی مختلف اسکیمیں ترتیب دینا ایک چیلنج ضرور ہے مگر اس پر پورا اُترنا ناممکن نہیں۔ اس مقصد کیلئے بہتر اور نئے مالیاتی نظام کو سامنے لانا ضروری ہے۔ریگولیٹری ڈھانچہ بنانا ضروری ہے تاکہ اجناس کیلئے بہتر پیداوار کی ٹیکنالوجی مل جائے۔ اسی سلسلے میں کریڈٹ سپلائی کو بہتر بنانا ضرور ی ہے جس میں چھوٹے ہولڈرز کی فارم کی سرگرمیوں کیلئے بہتر اور جدید مالیاتی بنیادی ڈھانچے کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اور تحقیق کریں تو حالیہ برسوں میں زرعی شعبے میں قرضہ بازاروں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بینک دولت پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق مالی سال 2018-2017 میں بینکوں نے 900 ارب روپے سے زائد رقم 32.7لاکھ کسانوں کو زرعی قرضے کے طور پر جاری کیے۔ اسی طرح یہ قرضے آلات کی فراہمی کیلئے بھی دیئے جانے چاہئیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت میں دیکھیں تو مشینری اور اوزار آلات کی فراہمی سے ہی فی ایکڑ پیداوار بڑھتی ہے۔ پاکستان میں کسانوں کی اکثریت پانچ ایکڑ کے قریب زمین کی مالک ہے۔ انکے آلات میں جدت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ملکی اور کاشتکار کی خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس امر میں اکثر انعامی اسکیموں کا اجراء بھی کیا جاتا ہے جس میں کاشتکاروں کیلئے لاکھوں روپے کی مشینری کے انعامات رکھ کے انکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ زراعت اب تجارت کی شکل اختیار کر چکی ہے اس لیے ڈاکٹر شبیر احمد کے کہنے کے مطابق فصلوں کی کاشت کے بارے میں تمام عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مؤثر منصوبہ بندی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یران-اسرائیل کشیدگی اور مہنگائی کی لہر
Apr 15, 2024