1931ء میں سری نگر کے مقام پر آزادی کے متوالوں نے غاصب ڈوگرہ حکمران کو للکارا اور ریاست جموں و کشمیر کے 80 فیصد مسلم اکثریتی آبادی کے حقوق کا مطالبہ کیا۔ جواب میں ظالم حکمران نے نہتے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں 22مسلمان موقع پر ہی شہید کر دیئے گئے۔ اس لازوال قربانی نے موجودہ جاری تحریک آزادی کشمیر کو بنیاد فراہم کی۔ اور کشمیریوں نے اکتوبر 1932ء کو سری نگر میں ریاست کے ایک نمائندہ اجلاس میں اولین تاریخ ساز سیاسی اور جہادی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ شیخ عبداللہ پہلے صدر اور چوہدری غلام عباس سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ جن کی کاوشوں کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 1934ء میں ہوئے جس میں مسلم کانفرنس نے کل 21 نشستوں میں سے 14 نشستیں حاصل کیں۔ 1938ء کے انتخابات میں 21 میں سے 19۔ 1939ء میں 21میں سے 21۔ 1947ء میں شیخ عبداللہ کی غداری کے باوجود 21میں سے 16 نشستیں حاصل کیں۔ 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کے اجلاس میں تاریخی قراداد الحاقِ پاکستان منظور کی گئی۔ کشمیری مسلمانوں کی کثرت رائے کا احترام کرنے کی بجائے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور مہاراجہ کشمیر نے پنڈت نہرو اور دوسرے کانگریسی لیڈروں سے ساز باز شروع کر دی۔ جن کو پسِ پردہ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اشیرباد بھی شامل تھی۔ اس سازش کے افشاں ہونے پر پاکستان بننے کے آٹھ روز بعد 23 اگست 1947ء کو نیلا بٹ دھیر کوٹ باغ کے مقام پر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ جلسے کی صدارت سوہاوہ شریف کے روحانی پیشوا ولی کامل پیر سیّد شمشاد حسین شاہؒ نے کی اور جلسے سے پیر سیّد صادق حسین شاہ عادل، سردار محمد عبدالقیوم خان، سیّد مظفر حسین شاہ ندوی، پیر سیّد علی اصغر شاہ گیلانی، سردار محمد عبدالغفار خاں اور دیگر نے خطاب کیا۔ جلسہ میں متفقہ قرار داد منظور کی گئی جس میں مہاراجہ کشمیر سے مطالبہ کیا گیا چونکہ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اس سے پہلے 19 جولائی کو سرینگر کے مقام پر ایک قرار داد کے ذریعے الحاقِ پاکستان کی قرار داد منظور ہو چکی ہے۔ لہٰذا (1)مہاراجہ کشمیر ریاست کے پاکستان کیساتھ الحاق کا اعلان کرے۔ (2) مہاراجہ کشمیر اسلام قبول کر لیں تو ریاست کے لوگ انہیں اپنا حکمران تسلیم کر لیں گے۔ (3) عوام کو داخلی طور پر مکمل خود مختاری دی جائے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو ہم اپنی تحریک آزادی پورے جوش و خروش سے جاری رکھیں گے۔ اس تقریب میں پیر شمشاد حسین شاہؒ کو امیر جہاد مقرر کیا گیا اور سردار محمد عبدالقیوم خان کو امیر کارواں مقرر کیا گیا اور جہاد کی کمان انکے سپرد کی گئی انہوں نے اسلامی اصولوں کے عین مطابق جہاد کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے 15اگست 1947ء کو ایک بہت بڑے جلسۂ عام میں راولا کوٹ سے بھی تحریک کا آغاز کر دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ گلگت بلتستان سے بھی مجاہد ین اسلام نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد پورے جوش و جذبے سے شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں 33 ہزار مربع میل علاقہ آزاد ہو گیا۔ اس عظیم جہاد میں صوبہ سرحد کے قبائل کا بھی بہت اہم رول ہے۔ مجاہدین سری نگر کے قریب پہنچ گئے تھے اگر ایک خفیہ سازش کے تحت جنگ بندی نہ کرا دی جاتی تو آج پورے کا پورا کشمیر پاکستا ن کیساتھ شامل ہوتا۔ اس تحریک کے بارے میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں۔ لاکھوں لوگوں کی طرح قائد ملت چوہدری غلام عباس اور سردار محمد عبدالقیوم خان نے بھی اس جنگ بندی کو دل سے قبول نہ کیا اور ساری عمر کشمیر کی آزادی اور اسکے پاکستان کیساتھ الحاق کی جدوجہد کو جاری رکھا۔ 1958ء میں رئیس الاحرار قائد ملت چوہدری غلام عباس کی قیادت میں کشمیر کی جنگ بندی لائن عبور کرنے کی تحریک (کے ایل ایم) شروع کی لیکن اُنکو گرفتار کر لیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء میں قید و بند کی صوبتیں برداشت کیں۔ 1970ء کے صدارتی انتخابات میں سردار محمد عبدالقیوم خان بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے اور آزاد کشمیر میں اُنکی حکومت قائم ہو گئی تو اُن کو اپنے ضمیر کی آواز اور سوچ کیمطابق کام کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے محدود وسائل اور بے شمار مسائل کے باوجود تاریخ ساز کارنامے سرانجام دیئے۔ جن میں چند ایک کا یہاں مختصر ذکر کیا جا رہا ہے۔ اُنکا سب سے بڑا کارنامہ پوری دُنیا میں پہلی مرتبہ قادیانیوں کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے اقلیت (غیر مسلم) قرار دیا۔ (2) آزاد کشمیر میں شریعت کے تحت اسلامی قوانین نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی، عدالتوں میں قاضی مقرر کئے، اسلامی مکتب سکول قائم کئے، سرکاری و غیر سرکاری سطح پر جمعہ کو چھٹی کا دن قرار دیا، اسلامی تعزیرات کے نفاذ سے ریاست میں جرائم کی شرح اُنکے دورے حکومت میں نہ ہونے کے برابر رہی۔ (3) آزاد کشمیر میں اردو کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے نفاذ کیا۔ سردار محمد عبدالقیوم خان، غلام حیدر وائیں اور ڈاکٹر مجید نظامی ساری عمر دو قومی نظریے، تکمیل پاکستان اور استحکامِ پاکستان کیلئے زندگی کی آخری سانسوں تک جدوجہد کرتے رہے۔ ان قائدین کی کاوشوں اور نظریاتی لام بندی کی وجہ سے جو شمعیں روشن ہوئیں اُنکی حفاظت کرنے اور اُنکو ہمیشہ روشن رکھنے کیلئے پاکستان، کشمیر بلکہ پوری دُنیا میں بے شمار لوگ آزادیٔ کشمیر اور تکمیل پاکستان کیلئے کام کرنے کا عہد کئے ہوئے ہیں اور اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن سردار عتیق احمد خان جماعت کے صدر اور اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے با وجود اور وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے اپنی غلط حکمت عملی اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی بے مقصد حمایت کی وجہ سے مسلم کانفرنس کو قائم نہ رکھ سکے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی حمایت کھو بیٹھے اور 26 جون 2011ء کے الیکشن میں صرف چار سیٹیں حاصل کر سکے۔ مجاہد اوّل سے میری آخری ملاقات علالت کے دنوں میں ہوئی تو اُنہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ گردیزی صاحب میرا آپ سے کوئی سیاسی رشتہ نہیںبلکہ قلبی وابستگی ہے یہ کہتے ہوئے اُنکی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر میں بھی زارو قطار رو پڑا۔ اُنکی اتنی محبت پا کر مجھے میری چالیس سالہ بے لوث وابستگی کا انعام مل گیا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024