خدا بھلا کرے جنہوں نے ”امن کی آشا“ کے نام پر نجی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام ترتیب دیا جس میں پاک بھارت نوجوان سنگرز ایک مقابلے میں شریک ہیں۔ مقابلہ کیا ہے ایک جنگ کی سی کیفیت ہے۔ اس شو نے بہت سی چیزیں مزید واضح کر دی ہیں۔ دو قومی نظریہ کے ماننے والے ایک عرصہ سے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندو اپنے تکبر اور رعونت کی وجہ سے پاکستان کو آج بھی.... ایک حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو برابری کا درجہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کوئی موقع انہیں مل جائے پاکستان کو سبق سکھانے کا وہ چوکتے نہیں۔ کشمیر پر قبضہ کیا، خود اقوام متحدہ میں کیس لے کر گئے مگر طاقت اور دھونس کے بل بوتے پر انتہائی بے شرمی سے آج بھی اسے اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں۔ بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ ہندوستان کے ساتھ معمول کے تعلقات ضرور استوار رکھئے، تجارت بھی کرنا ہو تو کر لیجئے مگر دوستی؟؟ دوستی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ہندو بنئے کے دل سے پاکستان اور مسلمانوں کے لئے نفرت ختم نہیں ہو جاتی۔ مگر ایک طبقہ ہمارے ہاں ایسا ہے جو ہر وقت ہندوستان کے ساتھ دوستی اور وہ بھی ہر قیمت پر کرنے کے لئے بےتاب رہتا ہے۔ ”امن کی آشا“ تین ارب روپے کا پراجیکٹ ہو یا اس سے بھی زیادہ مالیت کا، کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس کا ثبوت یہ موسیقی کا مقابلہ دے رہا ہے۔ اچھا ہوا کہ ہندوستانیوں کا اصل چہر اس پروگرام کے توسط سے ویڈیو پروف کی شکل میں سامنے آگیا کہ کس طرح آشا بھونسلے جس کو ہم ایک بڑی گلوکارہ سمجھتے تھے، کتنی چھوٹی انسان نکلی۔ پاکستان کے گلوکاروں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ ایک اور ہندوستانی گلوکار ہمیش جو اپنی ٹیم کے کپتان ہیں پاکستان سے متعلق کتنی حقارت آمیز باڈی لینگوئج رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں کے چہروں پر اتنی حقارت ہے کہ پاکستانیوں کے لئے کہ ایک بچہ بھی اسے محسوس کر سکتا ہے۔ یہ حقارت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ بالآخر پاکستانی ٹیم کے کپتان عاطف اسلم کو اپنا اور اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لئے آگے بڑھنا پڑتا ہے جس پر سب کو انتہائی خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ عاطف اسلم نے بجاطور پر ان کی رعونت کا جواب دیا ہے۔ پروگرام کی ڈرامائیت کا بھی شاید تقاضا ہو کہ ایسا رنگ بھرا جائے مگر اسی رنگ میں جو ہندوستانی رنگ ابھرا ہے اسی نے ایک بار پھر دو قومی نظریہ کی تاثیر اجاگر کر دی ہے جسے خلیجِ بنگال میں دفن کرتے کرتے اندرا گاندھی خود گولیوں سے چھلنی ہو گئیں مگر دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے۔
اس نظریہ کو نقصان اگر پہنچا ہے تو غیروں کے ہاتھوں نہیں اپنوں سے پہنچا ہے۔ اس نظریہ کی اساس وہ نعرہ تھا جس کی بنیادی پر پاکستان بنایا گیا یعنی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ مگر جب سے پاکستان بنا ہے نام نہاد سیکولر اور لبرل طبقہ کو اس نعرہ سے بہت تکلیف پہنچی ہے اور ان کی حتی الوسع یہ کوشش رہی ہے کہ اس کو قوم کے ذہنوں سے کھرچ دیا جائے۔ اب ایک نعرہ دیا گیا ہے ”پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا” اور اس کا اتنا پرچار کیا جا رہا ہے تاکہ یہ نعرہ پہلے والے نعرہ کا متبادل بن جائے اور لوگ اسے بھلا ڈالیں‘ لیکن سوال ہے کہ کیا ایسا ہوگا؟ کیا یو ایس ایڈ کا پیسہ قوم کے ذہنوں پر ایسی کسی کوشش کو مسلط کر پائے گا؟ کیا ہمارا نام نہاد سیکولر کبھی اپنی اس خواہش کو پورا کر سکے گا کہ نظریہ¿ پاکستان کو خدانخواستہ دریابُرد کر سکے؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا انشاءاللہ! لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دو قومی نظریہ کے پرچارک ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں، قطعاً نہیں۔ دشمن انتہائی عیار ہے جس نے ہماری صفوں میں سے ہی ہمارے بہن بھائیوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ٹھانی ہے۔ ان لوگوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے مگر وہ موثر ہیں اور کثیر رقوم اور ان کی فراوانی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔
ادھر ملالہ یوسف زئی کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ کون بدبخت ہوگا کہ جو ایک چودہ سالہ نہتی بچی کو سر میں گولی مارنے کو بہیمیت قرار نہ دے اور اسے غیراسلامی فعل قرار دیتے ہوئے اس وحشیانہ عمل کی مذمت نہ کرے۔ مگر جس طریقے سے اس کیس کو میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اور مغربی ممالک اور ان کے میڈیا نے کوریج دی ہے یقین جانئے کہ مجھے تو خوف سا آنے لگا ہے۔ جس طریقے سے آئی ایس پی آر اس بچی کی ہارٹ بیٹ کی رپورٹنگ کر رہا ہے وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے اور خاص طور پر یہ کہ اس سارے کیس کو فوج ہی کیوں ہینڈل کر رہی ہے، ہماری سویلین حکومت کدھر ہے جس کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی۔ ہماری ایک اور بیٹی عافیہ صدیقی پر تو امریکی حکومت گُنگ ہے مگر ملالہ کے لئے وائٹ ہاﺅس سے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک ریڈ کارپٹ بچھانے کے لئے تیار ہے۔ کہیں اس لئے تو نہیں کہ ملالہ کو تقریباً تین سال سے امریکی اداروں اور انتظامیہ کی سرپرستی حاصل تھی اور نیویارک ٹائمز کی ایک ویڈیو میں رچرڈ ہالبروک کے ساتھ اس کی ملاقات کی تفصیل بھی موجود ہے۔ اسی ویڈیو انٹرویو میں ملالہ کا والد ایک بھارتی ہیرو رابندر ناتھ ٹیگور کی کتاب ہاتھ میں پکڑے ہوئے موجود ہے۔ کیا اس کتاب کے ذریعے بھارتی اور امریکی لابی کو اپنے سیکولر ہونے کا پیغام دینا مقصود تھا یا یہ صرف حسن اتفاق تھا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔
کسی سیانے نے کہا تھا کہ ماں سے جو عورت زیادہ پیار کرے وہ چڑیل ہوتی ہے۔ ملالہ کے لئے ہماری قوم آنسو بہائے اس کا حق ہے مگر امریکہ برطانیہ اور دیگر ممالک کے آنسو کس کھاتے میں ڈالے جائیں گے؟ کاش کہ اس سے پہلے وہ ان ہزاروں بچوں کے خون کا حساب تو دے دیتے جن کو وہ اسی ملک میں نشانہ بنا چکے ہیں اور وہ بھی اس بے دردی کے ساتھ کہ ان کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے۔
اس وقت ایک طرف مذہبی شدت پسند ایک انتہا پر موجود ہیں تو دوسری طرف لبرل فاشسٹ اور موقع شناس دوسری انتہا پر ہیں۔ ایک طرف ملالہ پر بزدلانہ حملہ کرنے والے ہیں تو دوسری طرف امریکی گود میں ڈالروں پر پلنے والے جن کے نزدیک دو قومی نظریہ یا قومی مفاد نام کی کوئی فاختہ وجود نہیں رکھتی۔ یہ دونوں انتہائیں پاکستان اور نظریہ¿ پاکستان و اسلام کے خلاف ہیں۔ پاکستان کی اصل منزل ان دونوں انتہاﺅں کے درمیان ہے یعنی اعتدال....!!! حدیث نبوی ہے ”خیر الامور اوسطھا“۔ بہترین راستہ درمیانی راستہ ہے۔ یہی مسئلے کا حل ہے اور ہمارے ملک کی بقا کا ضامن بھی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024