ہفتہ 3 جمادی الاول 1445ھ، 18 نومبر 2023ئ

بابوں کو چھوڑیں ، مجھے وزیر اعظم بنا کر خدمت کا موقع دیں۔ بلاول
اب بلاول جس طرح بابوں کو سیاسی منظر نامہ سے ہٹانے کے درپے نظر آ رہے ہیں۔ اس سے تو خطرہ ہے کہ کہیں پرانے سیاسی بابے یکجا ہو کر ان کے خلاف ہی کوئی محاذ نہ کھول لیں۔ ویسے اگر بابے بہت ز یادہ بلاول کو ناگوار گزر رہے ہیں تو وہ ذرا اپنی پارٹی پر بھی نظر ڈالیں جہاں ہر قدم پر انہیں یہی بابے اہم عہدے پر براجمان نظر آئیں گے۔ بہتر ہے کہ ملکی سیاسی منظرنامے کی بجائے وہ پہلے پارٹی میں موجود ان بابوں سے جان چھڑانے کی کوشش کریں۔ کیا یہ ان کے لئے ممکن ہو گا۔ اس سے پہلے بے نظیر نے بھی بابوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی تھی اس کے باوجود ا ن کی پارٹی میں بابوں کی بہار چھائی رہی۔ آج تک یہ بہار پیپلز پارٹی کے آنگن میں ڈیرے ڈالے نظر آتی ہے۔ نجانے کیوں بلاول ان بابوں سے جو تجربہ کار سیاستدان کہلاتے ہیں بدظن ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں تو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کو ہی دیکھ لیں کوئی ہے جو ان کو بابا کہہ کر ان سے جان چھڑانے کی بات کرے۔ دنیا کو انہوں نے ”وختہ“ پا رکھا ہے۔ فی الحال بلاول کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے یہ ایک بابے کی ہی حکومت تھی جس میں انہیں وزیر خارجہ بنایا گیا اور وہ دنیا بھر کے سیرسپاٹے کر کے خود کو شو کرواتے رہے۔ ان کے اس دور میں کیا ملک کا ایک بھی مسئلہ خارجی سطح پر حل ہوا۔ الٹا اب بلاول اسے شہباز شریف کا دور حکومت کہہ کر ا پنا دامن بچاتے پھر رہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں ان کی اپیل کا عوام کیا جواب دیتے ہیں۔ ان کی خواہش پر انہیں وزیر اعظم بناتے ہیں یا پھر پرانے بابوں کو ہی لاتے ہیں۔
دواﺅں کی قیمتوں میں حیرت انگیز طور پر کمی آئے گی، ڈریپ کا دعویٰ
اب کہنے کو تو یہ کسی نشئی کی بڑ ہی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ آج تک جس چیز کی قیمت بڑھی ہے وہ کبھی اور کسی حالت میں بھی کم نہیں ہوئی بلکہ اوپر چڑھتی جاتی ہے۔ اب یہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان والے جو خواب دکھا رہے ہیں اس کی تعبیر بھی مشکل نظر آتی ہے۔ عام طور پر ایسے خوابوں کو جھوٹے خواب کہا جاتا ہے جو ہمارے تمام حکمران، سیاست دان اور ادارے عوام کو دکھاتے ہیں۔ جو بے چارے ان کے جھانسے میں آتے ہیں اور تعبیر کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ جہاں چینی اور آٹے جیسے عام استعمال کی چیز کی قیمت بڑھنے کے بعد واپس کم نہیں ہوتی وہاں دواﺅں کی قیمتوں میں کمی کیا خاک ہوگی۔ ڈریپ کے پاس کونسا جادوئی فارمولا ہے جس کے تحت بقول ڈریپ والوں کے دواﺅں کی قیمت میں حیرت انگیز کمی آئے گی۔ اپنے دعوے کی تصدیق کے لئے ذرا ڈریپ والے پہلے ڈسپرین اور پینا ڈول جیسی عام استعمال والی سستی ادویات کی قیمتوں میں ہی کمی کرکے دکھائیں جو کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ یہ تو ان سے ہوتا نہیں الٹا بڑے بڑے دعوے کرکے خواہ مخواہ اپنی سبکی کروانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ بات صرف مہنگی ادویات کی ہی نہیں۔ دو نمبر جعلی ادویات سے مارکیٹیں بھری پڑی ہیں اچھی دکانوں پر بھی یہ جعلی میڈیسن فروخت ہو رہی ہیں۔ ڈریپ والے اس طرف نظر کیوں نہیں اٹھاتے۔ ان انسان دشمن افراد کو کڑی سزا کیوں نہیں دلواتے جو جعلی ادویات بنا کر فروخت کر رہے ہیں۔ اس جرم میں بنانے والے سپلائی کرنے والے اور فروخت کرنے والے تینوں برابر کے مجرم ہیں۔ ان دواﺅں سے بندہ ٹھیک کیا ہو الٹا اور خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر سسک سسک کر مرتا ہے۔ ان ظالم بھیڑیوں کو بھی کوئی قانون کے شکنجے میں یوںلائیں کہ ساری زندگی یہ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے سڑتے رہیں....
شاہدرہ فلائی اوور10 کی بجائے 5 ماہ میں مکمل ہوگیا
یہ حکومت پنجاب کی واقعی اعلیٰ کارکردگی کا ایک ثبوت ہے کہ اس نے اتنے کم وقت میں یہ کام کر دکھایا۔ اس طرح شاہدرہ کے لاکھوں رہائشیوں کے دل جیت لئے جو عرصہ دراز سے شاہدرہ چوک تا امامیہ کالونی ،کوٹ عبدالمالک اور شرقپور روڈ پر ٹریفک کے اژدھام اور گھنٹوں پھنسے رہنے کی وجہ سے پریشان رہتے تھے۔ اب موجودہ وزیراعلیٰ کو بھی اس پسماندہ گنجان آباد علاقے کا خیال آیا اور انہوں نے لاہور کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی عوام مسائل حل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ لاہور میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کی وجہ سے بڑے اور اہم مقامات پر جہاں رش لگا رہتا ہے فلائی اوورز اور انڈر پاس بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر اس سارے معاملے میں ایک بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ تیز رفتار کام اپنی جگہ مگر کیا اس طرح معیاری کام پر بھی توجہ دی گئی ہے یا نہیں کیونکہ ہمارے ٹھیکیدار صرف اپنی کمائی اور کمیشن اوپرافسران تک پہنچانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے کام کا معیار گھٹیا رہتا ہے۔ اب اگر اس فلائی اوور میں کوئی گھپلا ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا۔ وزیر اعلیٰ محسن نقوی تو نگران وزیر اعلیٰ ہیں۔ کہیں کوئی کرپٹ ٹھیکیدار اور انہیں ٹھیکہ دینے والے سرکاری افسران ان کی نیک نامی پر بٹہ لگانے میں کامیاب ہوگئے تو کیا ہوگا اس لئے وزیر اعلیٰ پنجاب پہلی فرصت میں اپنے دور کے تمام تعمیراتی کاموں کا کسی مستند فرم سے سے معائنہ کرالیں اور ناقص تعمیر و میٹریل کے مرتکب افراد کو نشان عبرت بنا دیں۔ یہ زیادہ بہتر ہوگا ورنہ بعد میں مقدمات کا سامنا خوامخواہ انہیں ہی کرنا ہوگا کہ ان کے دور میں یہ ناقص تعمیرات ہوئیں۔ اس وقت سب مبارک سلامت کے نعرے لگا رہے ہوں گے جس کے واقعی محسن نقوی مستحق بھی ہیں وہ ذرا خود ہی دوسری طرف بھی نظر ڈالیں تاکہ کوئی معاملہ پوشیدہ نہ رہے اور سب کچھ عیاں ہو۔ اچھائی ہو یا برائی ان کے سامنے آنی چاہیے....
واپڈا افسران کو مفت بجلی کی بجائے نقد رقم ادا کی جائے گی
اب یہ معلوم نہیں گریڈ 17 سے 20 تک کے واپڈا کے افسران کو سزا دی گئی ہے یا جزا۔ مفت کی بجلی ختم کر کے ان کو جو یہ 15 سے 40 ہزار روپے ماہانہ نقد رقم ملے گی یہ کس خوشی میں ہو گی۔ کیا کسی اور سرکاری ملازم کو ایسی شاہانہ مراعات حاصل ہیں۔ ان کی تو اب بھی انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں نظر آ رہا ہے۔ گریڈ کے حساب سے انہیں موٹی رقم ہاتھ آئے گی وہ بھی ماہانہ۔ اب انہیں بجلی ملے یا نہ ملے۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں البتہ ان کی وجہ سے خزانے پر بوجھ ضرور پڑے گا۔ واپڈا والوں کا تو پہلے ہی تعلیم و صحت کے میدانوں میں بھی مفتا لگا ہوا ہے۔ ان کے اپنے ہسپتال ہیں ، سکول ہیں۔ ریلوے جیسے خسارے میں چلنے والے محکمے کی طرح جن کے اپنے سکول، رہائشی کالونیاں، ہسپتال ہیں اور مفت سفری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ کارکردگی میں یہ دونوں ادارہ جڑواں بہنیں لگتی ہیں جو جونکوں کی طرح خزانے کو چمٹی ہوئی ہیں۔ عوام یعنی عام صارفین تو یہ رعایتیں دیکھ دیکھ کر جل بھن کر کباب ہو رہے ہیں۔ جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے بھاری بھرکم بجلی بل ادا کرتے ہیں اور واپڈا کے یہ ملازم مفت میں پہلے بجلی اور اب پیسے لیں گے۔ پوری دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا شاہانہ کام ہوتا ہو گا جو ہمارے قرضوں میں جکڑے ملک کی اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کئے جاتے ہیں۔ اس سے کئی درجہ بہتر تھا کہ بجلی بلوں میں موجود بلاجواز ناروا ٹیکس ختم کئے جاتے۔
اگر ایسا کرتے ہوئے موت پڑتی ہے یا آئی ایم ایف کا خوف جان نکال دیتا ہے تو کم از کم اس میں مناسب رد و بدل کر کے کسی حد تک تو کمی لائی جا سکتی ہے۔ اب جو ڈیم حکومت بنا رہی ہے کوئی ترقیاتی منصوبہ ہے یا نجی بجلی گھروں کی ادائیگی ہے فیول کی مد میں یا اسی طرح کے جو زبردستی کے ٹیکس بجلی بل میں ہیں وہ ختم یا آدھے کئے جائیں کیونکہ یہ ڈیم بنانا اور ادائیگیاں حکومتی خزانے سے ہونی چاہیے۔ مگر پیسے بجلی صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔ حکومت اشرافیہ ،تاجروں، صنعتکاروں، دکانداروں پر ہاتھ ڈالے جاگیرداروں ، زمینداروں پر ہاتھ ڈالے ان سے ٹیکس لے جو ماہانہ اربوں روپے کی بجلی اور ٹیکس چوری کرتے ہیں ،صرف بجلی صارفین کا ہی خون نہ نچوڑے....