قومی معیشت کو سنبھالنے کے دعوے اور بجلی، گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کا عندیہ

وفاقی حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے اور رواں مالی سال عالمی مارکیٹ میں بانڈز جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کو ٹیرف پر نظرثانی سے آگاہ کر دیا گیا ہے جبکہ ریٹیلرز ، رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئندہ مہینوں میں مہنگائی میں کمی متوقع ہے۔ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف پروگرام میں مزید کچھ عرصہ رہنا ضروری ہے کیونکہ موجودہ معاشی اصلاحات کو جاری رکھنے کے لئے سپورٹ کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پروگرام اور معاشی صورت حال پر بریفنگ دی اور بتایا کہ بجلی اور گیس کے شعبوں کا گردشی قرضہ ہماری جی ڈی پی کے چار فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ اسے نیچے لانے کے لئے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول رواں مالی سال میں بیرونی قرضے کے حصول کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔ عالمی مالیاتی اداروں اور شراکت داروں سے فنڈنگ مل جائے گی جس سے دسمبر میں زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے اور پاکستان کی ریٹنگ بہتر ہونے کی بھی توقع ہے۔ ان کے بقول پی آئی اے کی نجکاری کا عمل فاسٹ ٹریک پر کرنے کے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں جبکہ بجلی کمپنیوں کی نجکاری کے حوالے سے آئی ایف سی کی ٹیم کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
دوسری جانب سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی )کی ایپکس کمیٹی نے گزشتہ روز نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اپنے اجلاس میں خسارے کا شکار سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل مزید تیز کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان کی پائیدار معاشی بحالی میں پاک فوج کے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کا یقین دلایا ہے۔ اس اجلاس میں آرمی چیف کے علاوہ نگران وفاقی کابینہ کے ارکان ، نگران وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ اعلیٰ حکومتی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایپکس کمیٹی نے ایس آئی ایف سی کے تحت سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے اٹھائے گئے مختلف اقدامات پر پیش رفت کو انتہائی تسلی بخش قرار دیا اور ملک میں تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کر کے اس مسئلہ کے پائیدار حل کے لئے جامع لائحہ¿ عمل بنا کر پیش کرنے کی ہدایت کی۔ آرمی چیف نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے قبل وزیر اعظم ہاﺅس میں نگران وزیر اعظم سے ملاقات کی جس کے دوران ملک اور خطے کی سلامتی کے امور پر تبادلہ¿ خیال کیا گیا۔
یہ امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی دور سے اب تک کے عرصہ میں ملک کو بدترین اقتصادی، مالی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا رہا ہے جس کے ملکی معیشت پر انتہائی مضر اثرات برآمد ہوئے۔ اس عرصے میں سیاسی محاذ آرائی اور بلیم گیم کی سیاست نے قومی ریاستی اداروں پر بھی منفی اثرات مرتب کئے اور ادارہ جاتی محاذ آرائی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ ملک کے دفاعی طور پر بھی کمزور ہونے کا تاثر اجاگر ہوا۔ اس صورت حال میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کا عمل بھی رک گیا جبکہ پی ٹی آئی دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ -6 ارب ڈالر کے بیل آﺅٹ پیکج کے لئے اس کی قبول کی گئی تمام شرائط پر عملدرآمد سے ملک میں مہنگائی کے آئے روز سونامی اٹھنے لگے جنہوں نے عام آدمی کے لئے آبروبندی کے ساتھ زندہ رہنے اور سر اٹھا کر چلنے کی سکت بھی ختم کر دی۔ ڈالر کے نرخ بلندیوں کو چھونے لگے جس سے بیرونی قرضوں کا حجم بھی ازخود بڑھتا گیا اور آئی ایم ایف کو پاکستان کی معیشت اپنے شکنجے میں جکڑ کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھی دخل اندازی کرنے اور اپنی پالیسیاں ڈکٹیٹ کرانے کا موقع ملنے لگا۔
اس سے پاکستان کی آزادی و خودمختاری پر بھی زد پڑتی نظر آئی جسے بھانپ کر ہماری سلامتی درپے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی پاکستان کے خلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا اور اس نے کابل کی اشرف غنی حکومت اور پھر طالبان حکومت کے سر پر ہاتھ رکھ کر افغانستان کے راستے سے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی سازشوں میں کامیابی حاصل کر لی۔
ملک کی سلامتی کے حوالے سے یہ صورت حال انتہائی سنگین تھی جس کے ملک کی معیشت پر الگ سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ آئی ایم ایف کی شرائط بڑھتی چلی گئیں اور سیاسی عدم استحکام کی فضا گہری ہوتی چلی گئی، اتحادی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کا عرصہ اسی کش مکش میں گزارا جنہوں نے پی ٹی آئی قائد کی بدعہدی کے باعث معطل ہونے والے آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکج کی بحالی کے لئے انفرادی اور قومی ہزیمتوں کا ہر مرحلہ طے کیا اور اپنی پالیسیوں کے نتیجہ میں شتر بے مہار ہونے والی مہنگائی کا خمیازہ عوامی اضطراب و غصے کی صورت میں بھگتا جن کے لئے تیزی سے گرتی ہوئی اپنی عوامی مقبولیت کے باعث انتخابات میں جانا مشکل نظر آنے لگا۔ انہی حالات میں 2018ءکی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہوئی اور نگران سیٹ اپ تشکیل پایا جس کے ہاتھ پلے عوام کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا جبکہ آئی ایم ایف کے عبوری بیل آﺅٹ پیکج پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرانا ان کی مجبوری بنایا جا چکا تھا چنانچہ عوام کو نگرانوں کے ہاتھوں بھی بجلی، گیس ، ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پے درپے اضافے کے باعث مہنگائی کے جھٹکے لگتے رہے۔
اس صورت حال میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملکی سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ ملک کی خراب ہونے والی معیشت کو بھی سنبھالنے کے لئے حکومت کی بھرپور معاونت کا بیڑہ اٹھایا چنانچہ نگران حکومت نے سرمایہ کاری سہولت کونسل تشکیل دے کر اس کی وفاقی اور صوبائی ایپکس کمیٹیاں قائم کیں تاکہ معیشت کو سنبھالنے اور اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ وفاقی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سول سیاسی اور عسکری قیادتوں کی بھرپور شرکت ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی رائے سے متفق ہو کر قومی معیشت کو سنبھالنے کے اقدامات اٹھانے کی حکمت عملی طے کی جاتی ہے۔ اگرچہ آئین کے تقاضے کے تحت نگران حکومت کا ملک کے مستقل پالیسی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور اس نے انتخابات کے انتظامات کے لئے الیکشن کمشن کی معاونت کرنا ہوتی ہے تاہم موجودہ معروضی حالات میں انتخابی عمل کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو بحرانوں سے نکالنا بھی ضروری ہے چنانچہ نگران حکومت کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ملک کے پالیسی معاملات میں بھی بعض ضروری اختیارات دئیے گئے ہیں۔ اسی بنیاد پر نگران حکومت سرکاری اداروں کی نجکاری کے اقدامات بھی اٹھا رہی ہے اور قومی پالیسی سے متعلق بعض انتظامی معاملات پر بھی فیصلے کئے جا رہے ہیں جن میں ایپکس کمیٹی کا غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کو ملک سے باہر نکالنے کا فیصلہ بھی شامل ہے جو موجودہ حالات میں ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے معاملہ میں بہترین پالیسی فیصلہ ہے جس پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد سے ملک میں امن و استحکام کی بحالی کے امکانات بھی روشن ہیں جو بالاخر ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام پر منتج ہوں گے۔ قومی ایپکس کمیٹی کا گزشتہ روز کا اجلاس اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس میں معاشی بہتری کے لئے نجکاری کا عمل تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ قومی اقتصادی معاملات میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کی ہم آہنگی سے قومی معیشت کے سدھار کی بھی توقعات پیدا ہو چکی ہیں اور اسی تناظر میں پاکستان پر آئی ایم ایف کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے جس نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے مرحلہ میں عبوری قرض کی دوسری قسط جاری کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ اس سے یقینا قومی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں مدد ملے گی اور ملک پر طاری مایوسی کی فضا بھی چھٹنے لگے گی۔ تاہم اصل مسئلہ روز افزوں مہنگائی کا ہے جس میں عوام کو ریلیف دے کر ہی انہیں مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ اگر بجلی، گیس کے نرخوں میں اسی طرح اضافہ کیا جاتا رہا تو عوامی اضطراب بڑھ کر حکومتی گورننس کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ نگران وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف سے مزید بیل آﺅٹ پیکج لینے کا عندیہ بھی ظاہر کیا ہے جس سے بادی النظر میں مہنگائی سے خلاصی ملتی نظر نہیں آ رہی۔ یہ صورت حال ملک کے سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لئے الارمنگ ہے جس کے سسٹم پر بھی برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔