میخانہ سے مسجد تک

~~~~~
آئی جے آئی بنانے والوں کا لاڈلا کون تھا ؟ ؟ ؟
-----------------
میاں عبدالشکور صابر
mianshakoorsabir@gmail.com
~~~~~
اپنوں اور غیروں میں یہ بات مشہور عام ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب بھی اسٹبلشمنٹ کی نرسری میں پروان چڑھنے والے سیاستدان اور اداروں کے "لاڈلے" ہیں۔ حالات و واقعات کی روشنی اور ماضی کے دریچوں میں جھانک کر جائزہ لیتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کو میدان سیاست میں کون اور کیوں لایا اور اس کے اسباب و عوامل کیا تھے ؟
میدان سیاست میں میاں نواز شریف صاحب کی رونمائی سب سے پہلے ضیاءالحق صاحب کے دور حکومت میں ہوئی تب جنرل غلام جیلانی گورنر پنجاب تھے، انکو اپنی کابینہ بنانے کی غرض سے امانتدار و دیانتدار ، باصلاحیت اور محنتی وزراءکی تلاش تھی، تمام خفیہ ادارے، ساری ایجنسیاں عرق ریزی کے ساتھ ایسے مطلوبہ باصلاحیت اور بے داغ ماضی کے حامل افراد کی تلاش میں نکلیں تو ان کو شریف خاندان کا ایک فرزند "نواز شریف" گوہر مقصود کی صورت میں مل گیا، فیصلہ ان کے والد محترم میاں محمد شریف صاحب نے ہی کرنا تھا، اس خاندان کا کوئی ایک فرد بھی اس وقت تک کسی بھی سطح پر سیاست میں شامل نہیں ہو¿ا تھا، اس لئے قطعی طور پر سیاست سے دور رہنے والے اس خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف نے کافی پس و پیش سے کام لیا مگر انہیں لائق و فائق اور امانتدار و دیانتدار افراد کی ملک و قوم کو ضرورت اور وسیع تر ملکی مفاد کے حوالے دے کر آمادہ کرہی لیا گیا، اتفاق فونڈری، اور شریف خاندان کی دوسری مِلّوں اور
دوسرے تمام وسیع کاروبار کے مالی معاملات، اکاو¿نٹ سے متعلق ساری دیکھ بھال اور ذمہ داریاں میاں نواز شریف صاحب کے ہی ذمہ ہوتی تھیں، مرحوم مشرقی پاکستان میں شریف خاندان کی متعدد ٹیکسٹائل ملز اور کئی فیکٹریاں بھی موجود تھیں جو سقوط ڈھاکہ کے المناک اور اندوہناک حادثہ کے بعد بنگلہ دیش حکومت کی تحویل میں چلی گئیں۔ بغض نواز شریف اور ان کے حسد کی لاعلاج بیماری کے سنگین مرض میں مبتلا لوگ جانتے بوجھتے اور ہر بات کا بخوبی ادراک رکھنے کے باوجود اپنے مذموم اور ناپاک عزائم کی تکمیل کی خاطر دانستہ طور پر ہر دور میں لوگوں میں یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے علاوہ پورے شریف خاندان نے اہم ترین حکومتی مناسب پر موجود رہنے کی وجہ سے قومی خزانے کو ل±وٹا، کِک بیک اور دوسری کی گئی متعدد کرپشن کی سنگین وارداتوں کے ذریعے یہ سب لوگ مالدار و سرمایہ دار بنے۔ حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیاست اور حکمرانی کا سایہ یا معمولی سی ہَوا کا جھونکا تک جب پورے شریف خاندان کے قریب سے بھی ہو کر نہیں گزرا تھا تب بھی "شریف فیملی" کا شمار مشرقی اور مغربی پاکستان کے چند گِنے چ±نے بہت بڑے مالدار اور سرمایہ دار گھرانوں میں ہوتا تھا۔
گورنر غلام جیلانی صاحب کی کابینہ میں نواز شریف صاحب نے بطور صوبائی وزیر خزانہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ،
ضیاء الحق صاحب کے طیارے کے حادثہ کے بعد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں بینظیر بھٹو صاحبہ وزیراعظم بن گئیں جبکہ قسمت کی دیوی نے وزیر اعلٰی پنجاب کی حیثیت سے نواز شریف صاحب کو گَلے لگا لیا ، ان دونوں کے پورے دور حکومت میں ان کا آپس میں اِٹ کھڑَّاکا جاری رہا۔
جنرل حمید گل صاحب کی سربراہی میں
اس وقت کی مقتدر قوتوں نے بینظیر بھٹو صاحبہ کو سیاسی منظر سے غائب کرنے کی خاطر " اسلامی جمہوری اتحاد " بنا کر جماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کردیا ، " آئی جے آئی " کے نام سے بننے والے اس اتحاد کی سربراہی و صدارت کی "پَگ" بھی مقتدر قوتوں نے اپنے "لاڈلے" غلام مصطفٰی جتوئی صاحب کے سر پر رکھ کر ان کو انتخابی مہم چلانے کےلئے میدان میں اتار دیا۔ یہ بات اظہر من الشمس اور مسلمہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے "لاڈلے" تو صرف غلام مصطفٰی جتوئی صاحب ہی تھے جبکہ جنرل حمید گل صاحب اور دوسری تمام فیصلہ ساز قوتوں کے نزدیک نواز شریف صاحب تو کسی جمع و تفریق میں ہی نہیں تھے۔
عام تاثر یہ پھیلایا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بینظیر بھٹو کے مقابلے میں نواز شریف صاحب کو وزیراعظم بنوانے کےلئے اسلامی جمہوری اتحاد ( آئی جے آئی ) بنائی تھی حالانکہ یہ بات صد فی صد غلط ہے، اصل حقائق یہ ہیں کہ مقتدر قوتوں کا مطمع نظر ، انکی محبوب اور پسندیدہ شخصیت سندھ کے سابق وزیراعلٰی اور پیپلزپارٹی کے منحرف رہنما غلام مصطفٰی جتوئی صاحب ہی تھے جو مقتدر قوتوں کی آشیرباد سے پنجاب کے سابق گورنر و وزیراعلٰی غلام مصطفٰی کھر صاحب کے ساتھ مل کر نیشنل پیپلزپارٹی(این پی پی) بنا چکے تھے، جنرل حمید گل صاحب اور دیگر بااثر، فیصلہ ساز تمام اہم ترین لوگوں کا دست شفقت تو غلام مصطفٰی جتوئی صاحب کے سر پر تھا، جبکہ میاں نواز شریف صاحب مقتدر قوتوں کو قطعی طور پر قابل قبول نہیں تھے ، یہی وجہ تھی کہ ان فیصلہ ساز قوتوں نے "نگران وزیراعظم" کا تاج بھی غلام مصطفٰی جتوئی صاحب کو پہنایا تھا، نواز شریف صاحب کو نہیں، مذید برآں مقتدر قوتوں کی تشکیل کردہ آئی جے آئی کی سربراہی و صدارت بھی غلام مصطفٰی جتوئی صاحب کو عطائ کی گئی تھی، نواز شریف کو نہیں،
جب انتخابی مہم کا آغاز ہو¿ا تو راولپنڈی سے لاہور تک جانے والے بڑے جلوس کی قیادت و سربراہی بھی غلام مصطفٰی جتوئی صاحب کررہے تھے ٹرک کی چھت پر غلام مصطفٰی جتوئی صاحب اور اسٹبلشمنٹ کے منظور نظر افراد کا قبضہ تھا جبکہ نواز شریف صاحب تو اس مذکورہ ٹرک سے کافی فاصلے پر بہت پیچھے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اس قافلہ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، دور ، دور تک پھیلی ہوئی بسوں، ویگنوں اور موٹر گاڑیوں پر بڑے بڑے سپیکر نصب تھے، شرکائ جلوس کو مکمل طور پر یہ سبق پڑھا کر اَزبر کرادیا گیا تھا کہ جب بھی نعرہ لگے گا۔ " وزیراعظم ، وزیراعظم "
تو سب نے یہی جواب دینا ہے،
" مصطفٰی جتوئی، مصطفٰی جتوئی "
اور جب کہا جائے۔
پاکستان کی آن ، پاکستان کی شان،
تو سب جواب دیں ،
جتوئی خان، جتوئی خان•••••• جلوس روانہ ہو¿ا ، قافلے میں موجود گاڑیوں پر نصب سینکڑوں ، سپیکروں سے جب نعرے گونجے ••••• وزیراعظم، وزیراعظم،
جلوس کے اگلے اور پچھلے اور درمیانی تمام حِصّوں سے پوری قوت اور نئے ولولے کے ساتھ بس یہی ایک ہی جواب آتا "نواز شریف، نواز شریف،
ایک گاڑی میں نصب اسپیکروں سے غصہ میں بھری، غضب ناک آواز گونجتی،
پاکستان کی آن ، پاکستان کی شان،
تو ہر جانب پھیلے ہوئے مجمع سے پوری قوت کے ساتھ یہی گونجدار جواب آتا،
"نواز شریف، نواز شریف،
جتوئی صاحب اور ان کے سرپرستوں کے ماتھوں پر پسینے اور ہاتھ پاو¿ں پھول چکے تھے۔ ٹرک کے اردگرد موجود لوگ بکھر کر نواز شریف کی گاڑی کے قرب و جوار میں جمع ہو کر ان کی حمایت میں پورے جوش و خروش کے ساتھ والہانہ نعرے لگا رہے تھے ، اس غیر متوقع حیران و پریشان کن صورتحال کے پیش نظر جتوئی صاحب بمشکل گجرات تک ٹرک میں موجود رہے ، بالآخر وہ ٹرک سے اتر کر واپس اپنی گاڑی میں جا بیٹھے، دوسری طرف میاں نواز شریف کے چاروں طرف موجود والہانہ انداز میں نعرہ زن لوگوں نے ان کو گاڑی سے نکال کر ٹرک کی چھت پر لے جا کر بٹھادیا۔
مقتدر قوتیں منہ دیکھتی رہ گئیں، وزیراعلٰی پنجاب کی حیثیت سے کئے گئے کام، نواز شریف صاحب کی صوبے کےلئے بے بہا خدمات کو عوام سند قبولیت عطا کرکے اپنی محبت و عقیدت کے پھول ان پر نچھاور کر رہے تھے،
دلائل و براہین اور چشم کشا حالات و واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب اسٹبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش پانے والا پودا نہیں ہیں بلکہ وہ اس وقت کی مقتدر قوتوں کی مرضی و منشا اور خواہش و آرزوو¿ں کے برعکس خالص عوامی حمایت سے اقتدار میں بزور قوت آئے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ عوام کے دِلّوں کی دھڑکن بن کر ان کے اذہان و قلوب پر حکمرانی کرنے لگ گئے جس کا تسلسل آج تک جاری و ساری ہے۔