چند ہفتے قبل امریکہ میں کھڑے ہو کر چالیس لاکھ بھارتی امریکیوں کے سامنے وزیراعظم مودی بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ بھارت میں سب اچھا چل رہا ہے۔ اپنے ساتھ سٹیج پر کھڑے امریکی صدر ٹرمپ کو مودی یہ دکھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کہ بھارت تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور یہ مجمع اس کے اقدامات کا دیوانہ ہے۔ اس سال مئی کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو خود بی جے پی اور مودی کے حمایتی ووٹرز حیران رہ گئے۔تاہم اس کامیابی میں مودی کی اپنی شخصیت کا کمال زیادہ تھا۔ بی جے پی کی حریف جماعتوں میں جو پھوٹ پڑی ہوئی تھی مودی نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔بی جے پی کی حالیہ کامیابی سے لگتا ہے کہ مودی حکومت ہر قسم کی قانون سازی کی اہلیت رکھتی ہے۔تاہم سوال یہ ہے اسے بھاری مینڈیٹ تو مل گیا لیکن وہ بھارت کی کمزورہوتی معیشت کو کتنی دیر اپنی باتوں اور زبانی جمع خرچ کے ساتھ بہلاتے رہیں گے ۔ تاہم ان کے پانچ سال نے ثابت کر دیا کہ وہ قیمتی مواقع ضائع کرنے میں ماہر ہیں۔انہوںنے بیوروکریسی میں اصلاحات اور پالیسی سازی جیسے بہت سے اہم اقدامات کو نظر انداز کر دیا۔اپنے اقتدار کے دوسرے دور میں وہ ایک نیا چہرہ لئے نمودار ہوئے جس میں ان کا جھکائو اقتدار پر اپنی ذاتی گرفت مضبوط کرنے اور حریفوں سے انتقام لینے کی طرف رہا۔ اسی طرح وہ ہندو قومیت پر مبنی مقاصد کو پروان چڑھاتے دکھائی دئیے جیسا کہ کشمیر میں 80 لاکھ مصیبت زدہ مسلمانوں پر محاصرے کو طویل کرنا اور دہلی سے بیٹھ کر انہیں کنٹرول کرنا شامل تھا۔ یوں معاشی معاملات مکمل طور پر پس پردہ چلے گئے۔
مودی حکومت بھارت کو درپیش معاشی خطرات اور چیلنجز کے مقابلے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور حالت یہ ہے کہ مودی حکومت کے پہلے چھ ماہ اب اس سست ہوتی معاشی رفتار کی سانسیں برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو شرح پہلے آٹھ فیصد تھی‘ گر چکی ہے بھارت کو بے روزگاری کے عفریت سے بچنے کیلئے ہر حال میں ساڑھے سات فیصد کی شرح برقرار رکھنی ہو گی بلکہ اس سے اوپر ہی جانا ہو گا اگر اس نے چین کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ممبئی میں چیف اکانومسٹ پرانجل بھنڈاری کہتے ہیں کہ بھارت میں چھ فیصد سے کم شرح ترقی کا مطلب کساد بازاری ہے جو بھارت جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے تباہ کن ہے۔اسی طرح گاڑیوں کی فروخت میں ریکارڈ کمی‘پراپرٹی سیکٹر کی زبوں حالی اور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا مسلسل نقصان میں جانے سے بھارت کی معاشی ڈھانچے کو جڑسے ہلا دیا ہے ۔تاہم مودی کا سارا زور معیشت سے متعلق اپنے وعدوں کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے تخت کو مضبوط کرنے پر ہی دکھائی دیتا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کوئی من گھڑت کہانی نہیں بلکہ عالمی جریدے دی اکانومسٹ کی بھارت کے بارے میں خصوصی رپورٹ کا نچوڑ ہیں ۔اس رپورٹ میں مجموعی طور پر نریندر مودی کو ایک ناکام اور دو چہرے رکھنے والا شخص بتایا گیا ہے جو کہتا کچھ اور ہے اور کرتا کچھ اور ہے۔ انتخابات میں وعدے اس نے معیشت کی ترقی کے کئے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس کی توجہ صرف اپنی کرسی کو مضبوط کرنے پر ہی توجہ مرکوز رہی۔ رپورٹ میں مودی سرکار کی خارجہ پالیسی کا بھی تفصیلی ذکر ہے اور کشمیر میں جس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔بھارت کے عام آدمی کے مسائل کیا ہیں‘ بھارت کو معاشی میدان میں کون کون سی مشکلات درپیش ہیں رپورٹ میں ان کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے اور ساتھ ہی مودی کے ان اقدامات کا بھی جن کی وجہ سے بھارتی معیشت زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہے اور روز بروز گرتی چلی جا رہی ہے۔مودی امریکہ سے توقعات لگائے بیٹھا ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ اس کے اقدامات سے ناخوش نظر آتا ہے۔
اکانو مسٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ملک میں سکھ‘ مسلمان‘ بدھسٹ اور دیگر اقلیتیں آزاد ہیں لیکن عملی طور پر انہیں اسی طرح دیوار کے ساتھ لگایا جاتا ہے جیسا کہ اسی فیصد ہندوئوں کوبھارتی حکومت بے روزگاری کے جو اعداد و شمار پیش کرتی ہے، انہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔نوجوان بھی بہت کم ہی روزگار حاصل کر پاتے ہیں اور بہت ہی کم خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں ان کی تعلیم کے مطابق نوکری ملے۔ وگرنہ ادنیٰ قسم کی نوکریوں کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے تجربہ کار لوگ قطاروں میں درخواستیں دیتے کھڑے نظر آتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق بھارتی عوام اپنی زندگی میں یمن اور مصری عوام سے بھی کم خوش دکھائی دیتے ہیں۔
نریندر مودی کی شخصیت انتہائی مبہم اور غیر واضح ہے۔ایک مرتبہ ایک نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ نے مودی کی پالیسیوں پر تنقید کی تو مودی کا کہنا تھا کہ ان تھک محنت ہارورڈ یونیورسٹی سے زیادہ پھل دیتی ہے۔ کانگر سی لیڈر راہول گاندھی کے خلاف الیکشن مہم میں نریندر مودی نے اس نعرے کا بہت استعمال کیا۔ یہ نعرہ تھا‘ نام دار یا کام دار۔ یعنی کیا بھارتی عوام کام کرنے والے شخص کو ووٹ دیںیا ایسے شخص کو جو صرف خوبصورت نام پر اکتفا کرتا ہو۔ لفظوں کا یہ پرکشش استعمال مودی کو دوبارہ اقتدار میں تو لے آیا لیکن وہ خود کو کام والا ثابت نہ کر پائے۔وہ خود کو بہت زیادہ ذہین اور قابل شخص ظاہر کرتے رہے لیکن ان کی ذہانت اور قابلیت بھارتی معیشت کو ڈوبنے سے نہ بچا سکی۔2014کے انتخابات میں مودی نے خود کو بہت زیادہ ایماندار‘ طاقتوراور اہل انتظام کار ظاہر کیا جو مسائل حل کرنا جانتا ہو اور عوام کے دکھ درد سمجھتا ہو ۔گجرات میں جب وہ وزیراعلیٰ رہے اور2002ء میں دو ہزار مسلمانوں کو جلایا گیاگیا تو اس حوالے سے انہوںنے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب سب کا ساتھ دیں گے، سب کو لے کر چلیں گے۔انہوں نے اپنا ایک اور امیج بھی پیش کیا جو ایسے کٹڑہندو کا تھا جو ہندوئوں کی طرف جھکائو رکھتا ہو اور مسلمانوں کے ساتھ سختی برتنا جانتا ہو تاکہ اکثریتی ہندووں کو خوش رکھا جا سکے۔ان دو چہروں کی وجہ سے مودی کی انتخابی مہم میں جان پڑ گئی۔ تاہم حکومت میں آ کر یہ چیز غیرواضح رہی کہ اس کا اصل چہرہ ہے کیا۔مودی نے آتے ہی سابق دور کے بہت سے منصوبوں کو ختم کر دیا جن میں سمارٹ سٹی منصوبہ‘میک اِن انڈیا‘ڈیجیٹل انڈیا ‘کلین انڈیا‘ سٹینڈ اَپ انڈیا اور سٹارٹ اَپ انڈیا وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے منصوبے کامیابی کے ساتھ چل رہے تھے۔
مودی کا پہلا دور حکومت تعمیری ویژن سے عاری تھا۔تاہم سب سے بڑی ترقی یا تبدیلی وزیراعظم مودی کے اپنے آفس میں دیکھنے کو ملی۔ووٹرز سے براہ راست ٹیلیفونک اور ٹویٹر سے رابطوں کی بجائے بڑی بڑی چکاچوند قسم کی پریس کانفرنسیں سجائی جانے لگیں۔وزارتیں کمزور لوگوں کے حوالے کر دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اختیار خود ان کے اپنے پاس رہے۔انہوں نے میڈیا پر اثرانداز ہونے‘ اپوزیشن اور حریفوں کو جبری ہتھکنڈوں سے دبانے کے لئے ریاستی اداروں کا بے دریغ استعمال کیا۔وہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے ہر قسم کے دائو پیچ آزماتے رہے۔دوسرے دور کے انتخابات میں بی جے پی کو لوک سبھا میں تو اکثریت مل گئی لیکن بعض ریاستوں میں اسے اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی۔طاقت کے حصول کی ان کوششوں میں وہ ترکی کے صدر اردوان یا روس کے ولادی میر پیوٹن سے کافی مطابقت رکھتے دکھائی دئیے۔ وہ ذاتی طاقت میں بے پناہ اضافہ کر چکے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو ایسی طاقت کا کیا فائدہ جس سے ان کے حالات میں کوئی بہتری نہ آئے (جاری ہے )
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024