طوفان برپا ہے کہ اتحادی جا رہے ہیں، اتحادی ٹوٹ رہے ہیں، اتحادی نیا منظر نامہ دیکھ چکے ہیں، اتحادیوں کو نئی منزل کی خبر دی گئی ہے، اتحادیوں کا بولنا بلاوجہ نہیں ہے، اتحادیوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں، اتحادیوں کے سہارے پر کھڑی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے جملے ہر دوسری جگہ سننے کو مل رہے ہیں۔ گذرے چند دنوں میں حکومت کے اتحادیوں کے حوالے سے خبریں تیزی سے گردش کرتی رہیں اس کے بعد اتحادیوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کا جواب بھی دیا اور اظہار خیال بھی کیا ہے۔ سب سے زیادہ چودھری پرویز الہی اور چودھری شجاعت کے بیانات اور میاں نواز شریف کے حوالے سے ان کا نرم رویہ زیر بحث رہا ہے۔ چودھری پرویز الہی کے بیانات سے بھی کئی چیزیں نکال کر انہیں منفی انداز میں پیش کیا گیا اور اب بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام خبریں، تجزیے اور اندازے خواہشات پر مبنی ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اتحادیوں نے اپنی اپنی سیاسی سمجھ بوجھ اور سیاسی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے جواب دیا ہے انہیں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہیں۔ نہ کسی کے انگلیوں کے نشانات کوئی لے سکتا ہے نہ کسی کے خیالات کو خریدا جا سکتا ہے وہ اتحادی ہیں حکومت کے غلام تو نہیں ہیں۔ اسی ملک میں برسوں سے میدان سیاست میں کھڑے ہوئے ہیں اور مختلف حکومتوں میں رہے ہیں، اپوزیشن کا کردار نبھاتے رہے ہیں آج وہ حکومت میں ہیں تو اتحادی ہونے کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ انہوں نے حکومت کی غلامی اختیار کر لی ہے۔ اتحادیوں نے اپنی اپنی پوزیشن لی ہے جیسے اپوزیشن جماعتوں کی مختلف معاملات پر مختلف پوزیشن ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی تازہ مثال سب کے سامنے ہے۔ کون کون سی جماعت نے اخلاقی حمایت لیکن شرکت نہیں کی اسی طرح حکومت کے اتحادی بھی مختلف فیصلوں پر اپنی رائے یا اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں البتہ حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے سب مل کر کام کرتے ہیں۔ اتحادیوں میں کوئی دراڑ نہیں ہے۔ اتحادی متحد ہیں اور اپوزیشن کی خواہشات کو قتل کرنے کا پورا سامان کیے ہوئے ہیں۔
حکومت کی اتحادی جماعتوں میں دراڑ یا اختلافات کی مہم باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اس مہم کو سیاسی انداز میں چلایا گیا لیکن اس کا مقصد عسکری اداروں کو متنازعہ بناتے ہوئے ان کے حوالے سے متنازعہ عوامی رائے قائم کرنا ہے۔ چونکہ چودھری برادران اور ایم کیو ایم کے بارے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ دونوں اسٹیبلیشمنٹ کے قریب رہتے ہیں اور ان کے ہر سیاسی قدم کے ییچھے اور آگے کوئی اور ہوتا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں بھی ایم کیو ایم اور چودھری برادران کے بیانات یا خیالات کو بنیاد بنا کر حالات کو کچھ اور بنانے کوشش دراصل اپوزیشن جماعتوں کا وہ خطرناک ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے مفاد پرستی کی تمام حدیں عبور کر دی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں درحقیقت اپنے سیاسی کھیل میں افواج پاکستان کو فریق بنا کر اس ادارے کو متنازع بنانا چاہتی ہیں وہ ایسی رائے عامہ بنانا چاہتی ہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ فوج کا سیاسی کردار ہے اور فوج کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا ہے۔اس خطرناک ایجنڈے کے ساتھ میدان میں آنے والوں کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج ریاست کے ساتھ، فوج ریاست کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، فوج ملکی بقائ اور سلامتی کی ضامن ہے، فوج اگر کسی کے ساتھ ہے تو وہ پاکستان ہے۔ کیا فوج کا یہ طرز عمل، نقطہ نظر یا سوچ سیاسی سوچ کی وجہ سے ہے۔ یقینا نہیں پھر اپوزیشن جماعتیں اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے فوج کو متنازع بنانے ہے راستے پر ہیں جس میں انہیں کامیابی نہیں ہو گی۔ وہ بھول چکے ہیں کہ طاقتور اور مضبوط فوج ہی ملک کی بقائ اور سلامتی کی ضامن ہے۔ وہ دفاعی بجٹ جس پر یہ سب مل کر بحث کرتے ہیں کیا نہیں جانتے کہ کمزور فوج اور دفاع رکھنے والوں کا کیا حال ہوا ہے اور آج کمزور دفاع اور فوج رکھنے والے ممالک کو کن حالات کا سامنا ہے۔ کیا وہاں کے حالات اور عوام سکون میں ہیں کیا اپوزیشن پاکستان کو بند گلی میں دھکیلنا چاہیے۔
فوج ریاستی ادارہ ہے اور ریاست کی حفاظت کے کیے دیگر اداروں کی ظرح فوج کا اولین مفاد بھی ریاست کے مفاد سے جڑا ہوا ہے۔ اپوزیشن یہ جان کے کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے ہر نہیں بلکہ ایک ہی لائن ہر ہیں اور وہ کائن یہی ہے کہ پاکستان کی ترقی کے راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کیا جائے گا، اداروں کو بااختیار اور منافع بخش بنایا جائے گا، اداروں میں اصلاحات کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ اللہ پاکستان کے دشمنوں کو نیست و نابود کرے اور اس ملک کے ستھ غداری کرنے والوں کو کہیں جگہ نہ ملے، یہ ملک قائم و دائم رہے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے تحفے کے طور پر جگمگاتا رہے۔ امین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024