فیصلے سے حکومت اپوزیشن مفاہمت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے
شورٹی بانڈ کی شرط ختم، بیان حلفی پر نواز شریف کو باہر جانیکی اجازت، حکومت کا اپیل نہ کرنیکا عندیہ
لاہور ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے بانڈ جمع کروانے کی حکومتی شرط ختم کر دی۔ فاضل عدالت نے نوازشریف کو چار ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ فاضل عدالت نے حکومت کی طرف سے عدالتی ڈرافٹ پر اعتراض مسترد کر دیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ علاج مکمل نہ ہونے پر بیرون ملک قیام میں توسیع ہو سکتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔ نواز شریف کے وکلاء اشتر اوصاف اور امجد پرویز عدالت پیش ہوئے۔ وفاق کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان بھی پیش ہوئے۔ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل چودھری خلیق الزمان اور سپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل بخاری و دیگر بھی پیش ہوئے۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جو بھی شرائط عائد کی گئی ہیں وہ عدالت کے ذریعے ہونا چاہئے تھیں۔ فاضل عدالت نے کہا کہ کیا آپ درخواست گزار سے ہدایات لینا چاہتے ہیں؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کمرہ عدالت میں ہی ہیں۔ عدالت نے مشورہ کرنے کیلئے سماعت 15 منٹ کیلئے ملتوی کر دی۔کمرہ عدالت میں شہباز شریف امجد پرویز ایڈووکیٹ اور اشتر اوصاف علی ایڈووکیٹ سے مشاورت کر تے رہے۔34 منٹ بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکیل نے فاضل عدالت کو بتایا کہ نواز شریف یقین دہانی کروانے کو تیار ہیں جب بھی صحت مند ہوں گے واپس آئیں گے۔ عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ انکو واپس لانے کیلئے آپ کا کیا کردار ہو گا؟ شہباز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ وہ بھرپور سہولت فراہم کریں گے۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ ہمیں ڈرافٹ بنا کر دیں ہم ان الفاظ کو دیکھ لیں گے۔ جس پر لاہور ہائی کورٹ میں میاں نواز شریف اور میاںشہباز شریف کی طرف سے حلف نامے جمع کروا دیئے گئے۔ میاں نواز شریف کی طرف سے جمع کروائے گئے بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ سابقہ ریکارڈ کے مطابق علاج کروانے کے بعد واپس ملک آئوں گا۔ میاں شہباز شریف نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ نواز شریف چار ہفتوں میں یا علاج مکمل ہونے پر واپس آئینگے۔ نواز شریف کی سفارتخانے سے تصدیق شدہ میڈیکل رپورٹ رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ بھجواتے رہینگے۔ اگر وفاقی حکومت کو مصدقہ اطلاع ملے کہ نواز شریف بیمار نہیں ہیں تو پاکستان ہائی کمیشن کا نمائندہ ان کے معالج سے ملکر صحت کی تصدیق کر سکے گا۔ وفاق کے وکیل نے دونوں بیان حلفی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس کے بعدعدالت نے مجوزہ نئے بیان حلفی میں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کیلئے 4 ہفتے کا وقت دیا۔ اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے۔مجوزہ متن میں مزید کہا گیا کہ حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا۔ درخواست پر مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے میں ہو گی۔
میاں نواز شریف کی صحت کی بنیاد پر اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ضمانت ہو چکی ہے۔ ان کو ملک کے بہترین ڈاکٹرز کی خدمات حاصل ہیں ان میں سرکاری اور پرائیویٹ معالجین بھی شامل ہیں، سب کی متفقہ رائے تھی کہ میاں نواز شریف کا بیرون ملک علاج زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ایک چھت تلے تمام مطلوبہ میڈیکل ٹیسٹ نہیں ہو سکتے۔ ایسی رپورٹوں کی بنا پر میاں شہباز شریف کی طرف سے حکومت سے میاں نواز شریف کو ملک سے باہر بھجوانے کیلئے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کی گئی جس طرح شریف خاندانوں کی طرف سے حکومت سے درخواست کو انا کا مسئلہ نہ بنایا گیا اسی طرح حکومت کی طرف سے بھی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو چار ہفتے کی قابل توسیع اجازت دے دی گئی تاہم اس اجازت کو 7 ارب کے ایڈیمنٹی بانڈ سے مشروط کر دیا۔ جسے شریف خاندان کی طرف سے مسترد کر دیا گیا، اس کے بعد میاں نواز شریف کی علالت پر دونوں طرف سے سیاست ہونے لگی۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہئے تھا میاں نواز شریف کو غیر مشروط طور پر علاج کیلئے باہر جانے دیا جاتا، دوسری رائے یہ تھی کہ حکومت نے اگر بانڈ کی شرط رکھ دی تھی، جس طرح مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اور میاں نواز شریف کے عزیز میاں نواز شریف کی صحت کو انتہائی مخدوش قرار دے رہے تھے، اس کے پیش نظر ایک بھی لمحے کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے تھی۔ بلاتاخیر کڑی اور ناروا شرائط کوتسلیم کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو باہر بھجوا دینا چاہئے تھا۔ لیگی قیادت اجلاس بلاتی رہی، حکومت کی مذمت کرتی رہی اس میں کئی دن ضائع ہو گئے، مخالفین کی طرف سے اس تاخیر پر میاں نواز شریف کی بیماری پر شک و شبہ بھی اظہار کیا جانے لگا۔ ایسی سوچ کو سفاکانہ قرار دیا جا سکتا ہے مگر اسکے اظہار کا موقع بھی تو میاں نواز شریف کو باہر بھجوانے سے تاخیر کرنیوالوں نے دیا۔
شریف خاندان معاملہ عدالت عالیہ میں لے گیا جس نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مزید تاخیر نہ ہونے دی اور حکومت ہی کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کو چار ہفتے کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا گیا، حکومت کی ایڈیمنٹی بانڈ کی شرط ختم کر کے میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے بیان حلفی لے لیا۔ عدالت عالیہ کے روبرو ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے موقف اختیار کیا کہ میاں نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے وہ علاج کیلئے باہر جانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں مگر نواز شریف کو باہر جانے سے قبل عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا۔ عدالت نے اپنے اطمینان کیلئے نواز شریف اور شہباز شریف سے بیان حلفی حاصل کر لیا، عدالت کی کوشش رہی کہ فریقین رضا مندی سے ایک موقف پر متفق ہو جائیں مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ تحریری فیصلے میں 5 نکات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ کیا سزا یافتہ ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا میمورنڈم میں عائد کی گئی شرائط کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا وفاقی حکومت ای سی ایل آرڈیننس کے تحت شرائط لگا سکتی ہے؟ کیا انسانی بنیادوں پر بیمار شخص کے خلاف اس طرح کا حکم جاری کیا جا سکتا ہے؟ کیا ضمانت منظور ہونے کے بعد ایسی شرائط لاگو کی جا سکتی ہیں؟ اگر شرائط لاگو کی جا سکتی ہیں تو کیا یہ شرائط عدالتی فیصلے کو تقویت دیں گی؟ ان نکات کو جنوری میں عدالت عالیہ میں زیر بحث لایا جائے گا جس کے بعد ایسے کیسز میں ایک مثال سیٹ ہو سکے گی۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مابین سیاسی اختلافات ذاتیات تک چلے گئے۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کرپشن اور کرپٹ لوگوں کو کوئی رعایت نہ دینے کے عزم کے اظہار نے اپوزیشن کو متحدہ کر دیا۔ احتساب کے حوالے سے کسی سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کو عمومی طور پر سراہا جاتا ہے یہ ایک قانونی عمل ہے جو جاری رہنا چاہئے۔ اس کو لے کر حکومت کی طرف سے کسی کو ٹارگٹ کیا جانا چاہئے نہ کرپشن کے الزامات کی زد میں آئے لوگوں کو ملکی وقومی مفاد کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اپوزیشن اور حکومت کے مابین کشیدگی قبل ازیں بھی کم نہ تھی تاہم میاں نواز شریف کو باہر بھجوانے کے حوالے سے بانڈ کی حکومتی شرط کے بعد زیادہ ہی ہو گئی۔ میاں نواز شریف کی عدالتوں سے ضمانت کے بعد حکومت کی طرف سے نواز شریف کو باہر بھجوانے کے معاملے میں نرم رویے کا اظہار ہو رہا تھا۔ اسی کے پیش نظر قطر ایئر ویز میں سیٹیں بھی بک کرائی گئیں اس کے ساتھ ہی لیگی حلقوں کی طرف سے نامناسب بیان بازی ہونے لگی۔ شہباز شریف کو گیم چینجر کہا جانے لگا۔ ایک رہنما نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو پتہ ہی نہیں کیا ہو رہا ہے، فیصلے کہاں ہوتے ہیں۔ بادی النظر میں حکومت نے اس کے بعد سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے ایڈیمنٹی بانڈ کی شرط رکھ دی۔
عدالت عالیہ کی طرف سے اہم ترین فیصلہ آیا ہے جس میں فریقین کیلئے فیس سیونگ موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کے عمل کو آسان بنایا جاتا ہے تو موجودہ کشیدگی کی فضا میں کمی واقع ہو سکتی ہے جس سے حکومت کو یکسوئی سے اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے میں آسانی ہو گی۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر وزراء کی طرف سے ملا جلا ردعمل آ رہا ہے تاہم حکومتی اہم رہنما اور وزیراعظم کے قریب سمجھے جانے والے ماہر قانون بابر اعوان کی طرف سے کیا گیا ہے کہ حکومت اس فیصلے کیخلاف اپیل نہیں کریگی۔ کل منگل کو شیڈول کے مطابق کابینہ کا اجلاس ہونا ہے جس میں عدالت عالیہ کے احکامات کے مطابق میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کی توقع ہے۔ حکومت چاہے تو اس معاملے کو لٹکا سکتی ہے تاہم بابر اعوان کے بیان سے لگتا ہے کہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں یہی صائب اقدام ہے۔