ایودھیا کی بابری مسجد
ایک طرف تو پاکستان نے اپنی سرزمین میں واقع بابا گرونانک جی کے وطنِ مالوف کرتار پور تک رسائی کے لیے ان کے سکھ پیروکاروں کے لیے رستہ دیا اور نہایت قلیل مدت میں دنیا کے تقریباً ستر ملکوں میں آباد چودہ کروڑ سکھوں کے دل جیت لیے مگر دوسری طرف سکھوں اور مسلمانوں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے اسی وقت بھارت کے دہشت گرد وزیر اعظم نے ایودھیا کی صدیوں پرانی بابری مسجد ڈھا کر اس کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم دے دیا اور یہ کام اپنے ملک کے نام نہاد سپریم کورٹ سے فوری فیصلہ لیکر کروایا!
یہ دونوں واقعات اپنی اپنی جگہ پرانی تاریخ کا پتہ بھی دے رہے ہیں اور نئی تاریخ کی طرف واضح اشارات بھی ہیں، مسلم ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ شاندار تاریخ تو سب کے سامنے ہے، اسی طرح کرتارپور کی راہداری بھی ایک ایسا قدم ہے جو برصغیر میں سید ہجویر اور خواجہ اجمیرؒاور ان کے پیروکار چشتی صوفیوں کے زیر سایہ مسلم حکمرانوں کی منصفانہ شاندار تاریخ کی طرف واضح اشارہ ہے، گویا تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرانے کے لیے انگڑائی لے رہی ہے جبکہ اس کے برعکس بابری مسجد کا گرایا جانا اور اس کی جگہ رام مندر بنانے کا فوری عدالتی حکم نکال لانا بھی بنیا لبھو رام کی ہزاروں سالہ تاریخ کا پتہ دیتا ہے بلکہ تقسیم کے بعد سے اب تک پون صدی کی ہندوانہ روش تو ہمارے سامنے ہے۔
بات یہ ہے کہ نام نہاد اونچی ذات کے ہندو برہمن اور بنیا کی ایک خواہش ہے جو پوری نہیں ہو سکی اور ایک کوشش ہے جس کی ناکامی اور نامرادی بھی مقدر ہے اس کی کوشش یہ ہے کہ برصغیر سے اسلام اور مسلمان کو نابود کر دیا جائے جو ممکن نہیں ہے، اس لیے ہمارے لبھو رام کا ناکام اور نامراد ہو کر حسرت سے اپنا ماتم کرنا ہی اس کا مقدر ہے، اسی طرح ہمارے اس لبھو رام کی یہ خواہش ہے کہ یہاں وہ اپنے لیے ہندو ریاست قائم کر لے اور ایشیا کی سپر طاقت بھی بن جائے مگر یہ بھی تو مضحکہ خیز ہے کیونکہ لبھو رام نسل پرستی اور تعصب کا دیوانہ ہے وہ اونچی ذات کے ہندو برہمن اور بنیا کے سوا باقی تمام انسانوں کو اچھوت بنانے کا قائل ہے جو آج کی روشن ضمیر دنیا میں ناممکن بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے لیکن عالمی صہیونیت اور اس کے پنجہ میں تازہ گرفتار انکل سام چین کے مقابلے میں لبھو رام کو لانا چاہتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ بھی ناممکن اور مضحکہ خیز ہے مگر لبھو رام چھچھوری حرکات سے باز آنے والا تو ہے نہیں وہ تو اس خطے کے امن و سکون کا دشمن اول تو ہے اور رہے گا!
پاکستان نے تو سکھوں کے دل جیت کر انہیں اپنا بنا لیا ہے اس میں برصغیر کے ستائے ہوئے کمزور اور دکھی انسانوں کے لیے یہ پیغام بھی ہے کہ مسلمان اپنی ہزار سالہ تاریخ دہرانے کے لیے تیار ہیں اور اس کی طاقت اور قدرت بھی رکھتے ہیں لیکن گجرات میں ہزاروں بیگناہ مسلمانوں کے اذیتناک قتل عام کا تماشا کرنے والا ’’لبھورام بنیا‘‘ نریندر مودی (یا بقول مظلوم گجراتی مسلمان ’’نرا موذی‘‘) اپنے لیے اور اپنے ہندو بھارت کے لیے ہولناک گڑھا کھود چکا ہے ، وہ تمام غیر ہندو گروہوں، خصوصاً مسلمانوں، سکھوں، مسیحیوں اور دلتوں کا اعتماد کھو چکا ہے اور سب کو پاکستان کا سہارا لینے کی دعوت بھی دے چکا ہے، یہ تمام غیر ہندو گروہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر سیکولر اور جمہوری بھارت میں اپنی حکومت بنا سکتے ہیں کیونکہ نام نہاد اونچی ذات کا ہندو…برہمن اور بنیا تو حقیر سی اقلیت رہ جاتا ہے، اس لیے آنے والے وقت میں اس کے لیے اپنی حسرتوں کا ماتم کرنے کے سوا کچھ اور باقی نہیں رہ جاتا،۔
جگرات کا یہ مکروہ شکل اور مانا ہوا وحشی درندہ دہشت گرد اپنے ہاں کے مسلمانوں کی اذیت ناک موت کا تماشا کرنے کے بعد اب کشمیر کے بیگناہ انسانوں کو بھوک اور پیاس کی موت مارنے کا تماشا کر رہا ہے مگر ہمارے لیڈر اور دنیا بھر کے بڑے ان مظلوموں کو بچانے سے قاصر نظر آتے ہیں، اب تو اس درندہ صفت دہشت گرد کے ہاتھ میں ایٹم بم بھی ہے، وہ اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے بعد دنیا کی بڑی طاقتوں کو بھی للکارے گا جو مسلمانوں پر اس حقیر کی دست درازی کا تماشا دیکھنے میں مشغول ہیں!
مودی نے بڑی مبہم زبان میں کرتار پور کی راہداری کی ’’تعریف‘‘ کی ہے، وہ اب سکھوں اور مسلمانوں کی دوستی سے اندر ہی اندر حسد سے جل رہا ہے کیونکہ اسے خود بھارت کے اندر ہی اپنا انجام نظر آ رہا ہے لیکن ہمارا زخمی دل اور ناکام سکھوں کے حق میں یہ قدم ہمیں حضرت سطان الہند خواجہ اجمیر رحمتہ اللہ علیہ کے پیروکار چشتی صوفیوں کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین بھی ہے اور کامیاب ہونے کی خوشخبری بھی ہے! ہمیں اب لبھو رام بنیا سے کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھنا بلکہ برصغیر کے تمام کمزور اور لبھو رام سے ڈرے ہوئے انسانوں کی سرپرستی جاری رکھنا ہے اور چشتی صوفیوں کے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، بابری مسجد کے المیہ کے مقابلے میں کرتار پور کی راہداری سید ہجویر اور خواجہ اجمیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی سربلندی اور فتح کی خوشخبری بھی ہے!