مہنگائی کیوں؟
وزیراعظم نے معشیت مستحکم‘ رویہ مضبوط‘ سٹاک مارکیٹ میں ترقی اور سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد پر معاشی ٹیم کا شکریہ ادا کیا ہے تا ہم انہوں نے مہنگائی کو سازش قرار دیا۔ ساتھ ہی وزیراعظم بیچارے عوام کا بھی شکریہ ادا کر دیتے جو 15ماہ سے مہنگائی سازش کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں عدم کارکردگی پر وزراء کو گھر بھیجنے کا اعلان ہوا ہے وزراء کے نیچے افراد نوکر شاہی کو بھی تو گھر بھیجنا ضروری ہے صبح سویرے کمشنر منڈیوں کا دورہ کریں تو ذخیرہ اندوزوں کا سراغ لگالیں گے کون سے تھانے دار کو علاقے میں جوئے خانوں بدکاری کے اڈوں منشیات فروشوں جیب تراشوں کا علم نہیں ہوتا یہی وہ گاہک ہیں جن سے تھانے داروں کی تجوری کا منہ بھرا رہتا ہے اور منہ بندرہتا ہے مولانا فضل الرحمن قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں پورے ملک کی شاہراہیں بند کرنے سے دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں انہیں جمہوریت سے نہیں عمران خان سے ذاتی طور پر نفرت ہے وہ وزیراعظم کو اپنے راستے میں پڑا بڑا پتھر سمجھتے ہیں حالانکہ راستے انہوں نے بند کر رکھے ہیں آزادی مارچ کی بدولت وہ ایوان صدر نہ سہی اپوزیشن کی ڈرائیونگ سیٹ پر ضرور بیٹھ گئے ہیںنواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے بانڈ کی حکومتی شرط ختم ہونے سے ڈیل یا ڈھیل کی قیاس آرائیاں خاک میں مل گئیں اب حکومت اور اپوزیشن مل کر نیب کو بدل دیں کسی کی دشمنی میں اندھا پن لیڈر کا قد چھوٹا نہیں کر دیتا اپنے شہدائیوں کے دل میں بھٹو آج بھی زندہ ہے اسی طرح نواز شریف کے فدائی اور شیدائی نہیں بدلے شخصیات کی ملامت کرتے رہنے سے قوم کو کچھ حاصل ہو گا نہ وطن کا بھلا ہو گا ملک اور ادارے شخصیات کا محتاج نہیں ہوتے کسی امام کے چلے جانے سے باجماعت نماز کی ادائیگی رکتی نہیں اسی طرح لیڈر آتے اور جاتے ہیں ملک قائم دائم رہتا ہے اور رہے گا والدین دنیا سے چلے جاتے ہیں اولاد ان کی جگہ لیتی ہے نواز شریف کی زندگی معرکہ آرائی سب گزر گئی تین بار برطرف ہوئے آئین کو حکمرانی اور جمہوریت کو بول بالا اس کا مشن رہا ہے۔
اکنامکس اور فنانس کو سادہ لفظوں میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ معاشی سرگرمی ہو گی تو ٹیکس ہاتھ لگیں گے نجی شعبے میں جتنی زیادہ سرمایہ کاری اور سرگرمی دیکھنے میں آئے گی اتنی زیادہ ٹیکسوں کی حکومتی تجوری بھرنا شروع ہو گی۔ موجودہ ٹیکس پالیسی عدم مساوات پر مبنی ہے۔ ٹماٹر200روپے کلو بیچنے والے ٹیکس ریٹرن جمع کرانے نیشنل ٹیکس نمبر رکھنے اور ایک دھیلہ ٹیکس ادا کرنے سے آزاد ہیں یہ کس کی مہربانی ہے فردوس عاشق اعوان بہترین حکومتی ترجمان ہونے کے ناطے ستارہ امتیاز کی مستحق ہیں اور عبدالحفیظ شیخ کو تو نشان پاکستان ملنا چاہئے جن کی معلومات کا عالم یہ ہے کہ ٹماٹر کا نرخ منڈی میں 17روپے جبکہ محترمہ کی اطلاع ہے کہ مٹر 5روپے کلو میں دستیاب ہیں 5روپے میں تو سوکھی روٹی تک میسر نہیں یہ کسی ترجمانی اور کیسی مشاورت ہے ایک کیسی سال میں سبزیاں 6گنا تک مہنگی ہو گئیں ٹماٹر 300‘ پیاز100‘ آلو80‘ لہسن400‘ ادرک 400‘ شملہ مرچ300 روپے کلو ہو گئی‘ چھاپے جرمانے رپورٹیں سب پرانی باتیں ہیں میڈیا بہت کچھ سامنے لے آتا ہے حکومتی بینک کو مولانا فضل الرحمن کا دھرنا تو دکھائی دے رہا ہے مہنگائی کا دھرنا کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟ اوور ہیڈ برجوں پر پیسہ برباد کیا گیا دو آبادیوں کو ملانے والے پل مسمار کر دیئے گئے لال پل کا پل ختم ہو گیانام باقی ہے سارے اوور ہیڈ برج ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور گندگی سے اٹے پڑے ہیں ٹریفک وارڈنوں کے ساتھ ہر چورا ہے پر ٹریفک سکائوٹ کھڑے کر دیئے جائیں تو ٹریفک کی روانی قابل دید ہو گی سرکاری سکول پہلے نام نہاد این جی اوز کے حوالے کئے گئے‘ اب بچے کچھے بلدیات کے حوالے کئے جا رہے ہیں سرکاری اجلاسوں میں دھرنوں کے میلے ہوتے ہیں چند نابیناؤں کو نائب قاصد کی نوکریاں دینے سے بجٹ کون سے بھونچال کا شکار ہو جاتا سکول اساتذہ تعلیم بچاؤ تحریک کے نام پر دھرنا نہیں دیں گے تو اور کیا کریں گے ایسے بھونڈے فیصلے کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں سٹیزن پورٹل کی کارکردگی کا پول بھی کھل گیا ہے سرکاری محکموں کے اہل کاروں کے منہ کو جو خون لگ چکا ہے وہ شکایت کنندگان کی دادرسی کیوں کریں اتنے بڑے گورنر ہاؤس میں دوبار عام یا کھلی کچہری لگنی شروع ہو جائے تو سارے محکمے بے لباس ہو جائیں گے گورنر صاحب اپنے گھر کے دروازے سیر کے لئے کھولنے کے بجائے ان کے دل کے پھپولے سُننے کے لئے کھول دیں تو انہیں اپنی آخرت کا سامان مفت میں ہاتھ لگ جائے گا ’’ سیلیکٹڈ‘‘ شکایت کنندگان کے ساتھ فوٹو سیشن کی حقیقت سے سب آگاہ ہوتے ہیں اتوار بازار اور سستے بازار کے دوروں سے صرف تصاویر چھپ جاتی ہیں چینی کے نرخ پچاس باون سے بڑھ کر اسی نوے روپے فی کلو تک پہنچ گئے ہیں کاشتکار اپنی پیداوار براہ راست منڈی میںکیوں نہیں لاتے؟ کیا مڈل مین پراپرٹی ڈیلر کی طرح ناگزیر ہے منڈیوں میں مڈل مین ارب پتی لوگ ہیں انہیں ہر صبح بیٹھے بٹھائے جگا ٹیکس مل جاتا ہے یہ جگا ٹیکس ٹیکس سے متثنیٰ ہے۔ کیا ٹیکس پاکستان سٹیل، پی آئی اے پاکستان ریلویز اور دوسرے 200 نام نہاد سرکاری اداروں کے 2.1 کھرب روپے کے خسارے پورا کرنے کے لئے جمع کئے جاتے ہیں ٹرینیں 12 گھنٹے تک تاخیر کاشکار ہیں ایک سال میں بڑے حادثات نے ریکارڈ قائم کیا ہے سکیورٹی انتظامات بہتر نہیںہو سکے ناکارہ ڈبوں کی قطاریں ناکارہ ٹرانسفارمروں کی طرح لگی ہیں گھوسٹ سکولوں گھوسٹ، ٹیچرزکی طرح گھوسٹ پینشنرز پیدا کرنے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔پاکستان سٹیزن پورٹل کے پاس میٹروپولیٹن کارپوریشن اور جنرل بس سٹینڈز کے خلاف ہزاروں شکایات کا انبار لگا ہے پاور سیکٹر میں نقصانات اور خسارہ 1.7 کھرب روپے ہے کیا ٹیکس گزار ان خساروں کو پورا کرنے کے ذمے دار ہیں؟ اپنی کرپشن کا نام پولیس کی وردی بدلنے کی طرح ’’آنٹی‘‘ کرپشن کر دیا جائے پیٹی بھائی کا رشتہ ہے پیر بھائی سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے پرویز مشرف بھی کسی کا پیٹی بھائی ہے اس کے لئے ساتھ خون معاف ہیں مقامی سرمایہ کار سالانہ 5000 ارب روپے گردش میں لاتے ہیں انہیں ہانگ کانگ اور دوبئی کی طرح فری ہینڈ ملے تو غیر بھی دوڑتے ہوئے آئیں گے ایک سال میں شرح سود دوگنی ہو گئی ہے پھر بھی ڈالر سرمایہ کار ہاتھ نہیں لگ رہے۔ 30 ارب کا تو تیل درآمد ہوتا ہے 4 ارب ڈالر کی غذا کی اشیاء اور 3 ارب ڈالر کا آئرن اور سٹیل، پانچ سال پہلے بنگلہ دیش اور ہماری برآمدات 25 ارب ڈالر تھیں 5 سال میں بنگلہ دیش کی برآمدی آمدنی 25 سے 40 ارب ڈالر ہو چکی ہے اگر ہماری بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات 24 ارب ڈالر اور برآمدات 40 ارب ڈالر ہو جائیں تو ہمارا فارن اکاؤنٹ متوازن ہو سکتا ہے۔ آزادی مارچ ختم ہو گیا۔ پہلے بھی دھرنے ہوتے رہے اور بلا نتیجہ ختم ہوتے رہے یہ خوفناک بات ہے کہ اب شہر شہر دھرنے ہوں گے حکومت کو فوری بڑے فیصلے کرنا ہوں گے عمران خان اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا نہ لگنے دیں، سیاست میں پُر اسرار بے چینی دکھائی دے رہی ہے ڈیل کا تاثر درست نہیں! نوازشریف نے سنت سماجت کے بجائے عزیمت کا راستہ اپنا لیا ہے بلند بانگ دعوے کرنے والے پارٹی بدل لیتے ہیں ن سے ق اور ق سے ن اب تو چھلانگوں اور یوٹرن کی سیاست ہے وزیراعظم کے گرد مشیروں کا گھیراؤ وزراء پر عدم اعتماد کے ووٹ کی غمازی کرتا ہے۔ نوازشریف کی روانگی کیلئے کنفیوژن کیوں پیدا کیا گیا۔ دھرنا ختم ہونے سے مولانا کی فیس سیونگ کی خواہش پوری ہو گئی اور اب ان کے پلان بی کا بھی دھڑن تختہ ہو جائیگا۔ حکومت اور ن لیگ اپنی اپنی جگہ اڑ گئے ہیں۔ انتخابات 2018ء کی رپورٹ توجہ طلب ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم ناگزیر ہو چکی ہے الیکشن کمیشن نے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) ترک کرنے‘ نئی حدبندیاں کرنے، نئی انتخابی فہرستٰں بنائے، انتخابات کے انعقاد کے موجودہ تین ماہ تا چھ ماہ دورانیے میں مستقل توسیع دینے اور اگلے تمام انتخابات میں تجربہ کار ریٹرنگ افسران کی تقرری کی تجاویز دی ہیں۔