کرتار پور، ضمنی الیکشن آزاد کشمیر
پاکستان نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بھارت کے معتصبانہ اور دشمن رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے خیر سگالی اور امن کا پیغام دیا ہے جس کی واضح مثال ایک سال سے بھی کم عرصے میں کرتار پور راہ داری کی تعمیر ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے افتتاحی تقریب سے خطاب میں بابا گورونانک کے ماننے والوں سکھوں کیلئے مسرت اور شادمانی کا سامان مہیا کیا اور بھارت سمیت پوری دنیا کو امن کا پیغام دیا لیکن اس کے برعکس اس موقع پر بھارت نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو منفی پیغام دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کیس میں تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کی جگہ ہندوئوں کے حوالے کرنے اور حکومت کو مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔ بڑی جمہوریت اور سیکولر بھارت نے امن کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے درست کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو برصغیر میں امن اور ترقی آ سکتی ہے۔ پاکستان نے کرتار پور راہداری کے علاوہ بھی ہندوئوں، سکھوں، عیسائیوں سمیت تمام اقلیتوں کو ہر ممکن اچھا ماحول مہیا کیا ہے۔ اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 106 دن سے انسانی زندگی مشکلات کا شکار ہے۔ خوراک ، ادویات اور بنیادی سہولتیں معطل ہیں۔ انٹرنیٹ سروس، فون سروس، تعلیمی ادارے، تجارتی مراکز بند ہیں۔ نوجوانوں عورتوں ، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو 8 لاکھ اسلحہ سے لیس فوج نشانہ بنا رہی ہے۔ آئین کی دفعہ 370 کو ختم کر کے کشمیر میں غیر مسلموں کو آباد کیا جا رہا ہے یہ تو شاید ڈوگرہ حکمرانوں نے بھی نہ کیا ہو۔ حریت رہنماء سید علی گیلانی نے وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک خط کے ذریعے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے پر پاکستان اور اس کے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔ کہا کہ آپ نے جس طرح UNO میں کشمیر پر جاندار مئوقف اپنایا قابل تعریف ہے۔ اس وقت جب پاکستانی حکومت ادارے اور عوام مظلوم کشمیریوں کیلئے سراپا احتجاج ہیں اور بھارت کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا فضل الرحمن اپنے جتھے کے ساتھ دھرنا دیئے ہوئے ہیں اور پوری دنیا کی نظروں سے مسئلہ کشمیر کو اوجھل کرنے کا مشن پورا کر رہے ہیں۔ مولانا کو اس بار قومی اسمبلی نہ پہنچنے کا دکھ کم نہیں ہو رہا۔ نزدیک اور دور سے دیکھا کہ ان کے پورے اجتماع میں پاکستان کا قومی جھنڈا نظر نہ آیا۔ اندازہ ہوا کہ ان کا نظریہ اب بھی وہی ہے جو قیام پاکستان سے قبل تحریک پاکستان کے دوران تھا۔ بہرحال پاکستان کے قیام کو 73 سال ہو چکے ہیں۔ مولانا سمیت ہم سب بے شمار نعمتوں سے مستفید ہوئے ہیں۔ اب اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کی طرح تحریک انصاف کے بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کی زندگی بھی ہمیشہ چیلنج سے دو چار رہی۔ اس بار میر پور حلقہ 3 کے آزاد کشمیر اور حکومت کے وزیر چوہدری سعید جن کو سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے منگلا ڈیم اراضی قبضہ کیس میں پانچ سال کیلئے نااہل قرار دے دیا ہے۔ ان کی خالی نشست پر 24نومبر کو ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ 2014ء میں بھی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے اپنی نشست سے مستعفی ہو کر اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ اور میاں نوازشریف کی مضبوط حکومت اور آزاد کشمیر میں چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے خود انتخابی مہم چلائی۔ راجا فاروق حیدر خان، چوہدری یٰسین اور بیرسٹر کے تمام سیاسی مخالفین ان کے خلاف مہم میں شریک تھے۔ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کی مخالفت کے باوجود سب رکاوٹوں کو عبور کیا تھا۔ اس بار بھی ساری سیاسی قوتیں یکجا ہیں۔ اس بار پاکستان میں تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت ہے۔ میاں نوازشریف پابند سلاسل اور بیمار ہیں۔ مسلم لیگ خود ہی انتشار کا شکار ہے۔ وزیر اعظم راجا فاروق حیدر کی حکومت کے باوجود اپنے لوگوں کو مطمئن نہ کر سکے ہیں۔ چوہدری یٰسین اور چوہدری مجید کی حزب اختلاف کی نشست کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ بہرحال راجا فاروق حیدر کیلئے بھی پیغام ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود کی کامیابی ان کی پارلیمانی پارٹی اور حکومت کیلئے آفٹر شاک کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے دونوں بڑی جماعتوں نے میثاق جمہوریت اور نظریہ ضرورت ایک بار پھر زندہ کیا ہے۔ شاید اس بار یہ طلسم نہ چل سکے۔ کیونکہ مسلم لیگ کے مضبوط اور توانا لوگ جن میں سابق چیئرمین ایم ڈی اے ڈاکٹر امین سابق چیئرمین زکاۃ کونسل اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنماء افتخار خادم جسٹس ریٹائرڈ عبدالمجید ملک کی جماعت لبریشن لیگ نے بیرسٹر کے پلڑے میں وزن ڈالا ہے۔ اسی طرح جرال راجپوت برادری ، گجر برادری اور دیگر برادریوں کی مکمل حمایت ان کے ساتھ نظر آ رہی ہے۔ انتخاب ایک گورکھ دھندا ہوتا ہے۔ لوگ زمینی حقائق دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ پارٹی ووٹوں کے علاوہ نیوٹرل ووٹر ان حالات کو مد نظر رکھتا ہے کیونکہ 2021ء میں آزاد کشمیر کے عام الیکشن ہونے ہیں۔ بیرسٹر پوری زور اور تیاری سے میدان عمل میںہیں انہوں نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے با اثر اور مضبوط لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کرایا ہے۔ وہ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتے ہیں ان کی اپنی خاندانی تاریخ ہے ان کے والد چوہدری نور حسین نے اس خطے کی آزادی کیلئے عملی کردار ادا کیا ہے۔ وہ وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر بھی رہے۔ وہ اپنی کامیابی کیلئے پر امید ہیں۔