تعلیمی نظام: خرابی کہاں ہے؟
آمدم برسرِ مطلب :۔ تعلیم ایسی دو کہ تعلیم یافتگان بے کار نہ پھریں اور یہ دیکھیں کہ کس شعبے میں کتنے نوجوان کھپ سکتے ہیں۔ خدا کا شکر کریں کہ ہمارے لاکھوں تعلیم یافتہ ، ڈاکٹر ، انجینئرز، چارٹرڈ اکائونٹنٹس،ایم بی ایز ، ٹیکنیشن بیرون ملک روزگار اور کام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ورنہ اتنے پڑھے لکھے بے روز گار افراد کی موجودگی ملک میں طوائف الملوکی کا باعث بنتی۔ کالم لکھنے کا محرک ایک شعبہ کی زبوں حالی تھی۔ اکثر یونیورسٹیوں نے انوائرمینٹل سائنسز‘‘ کا شعبہ قائم کر لیا ہے۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اس مضمون کے 95 فیصد سے زائد طلباء بے روزگار ہیں۔ محکمہ ماحولیات اور اسی قبیل کے دوسرے اداروں کا فرض ہے کہ یونیورسٹیوں کے متعلقہ شعبوں سے رابطہ میں رہیں اور فارغ التحصیل ہونے والوں کیلئے جاب مہیا کریں۔ یا اُن کی رہنمائی کریں کہ وہ یہ جاب کیسے اور کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے اس شعبے کا بھی فرض ہے کہ وہ فارغ ہونے والوں کو بے یارو مددگار نہ چھوڑ دیں کہ وہ گھاس کھود کر روٹی کمانے پر مجبور ہو جائیں۔ گلوبل وارمنگ اورماحول کی کثافت اور آلودگی نے ایسے مسائل پیدا کردئیے ہیں کہ قوم کے ہر فرد کی ان کے مضمرات اور ان سے بچائو کے طریقوں سے آگاہی ضروری ہو گئی ہے۔ یونیورسٹیوں کے ایسے شعبوں کو دیکھ کر وہ کاشت کار یادآتے ہیں جو ایک سال ایک فصل کی مانگ دیکھ کر اگلے سال بھی وہی فصل کاشت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں کھپت سے زیاد ہ مال آ جانے سے قیمتیں گر جاتی ہیں اور کسان ماتم گساں ہوتے ہیں کہ آمدنی تو کیا ہونی تھی ، پیداوار سے کاشت کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو رہے تھے۔ یونیورسٹیاں بھی بے تحاشا ایسے شعبے قائم کئے جا رہی ہیں کہ جن سے فارغ التحصیل ہونے والوں معاشرے میں کھپت کے مواقع بہت محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیا بہتر نہ ہو گا کہ وسائل کو یوں نہ ضائع کیا جائے جس شعبے کے تعلیم یافتگان میں بے روزگاری کی شرح 95 فیصد ہو گی اُس شعبے کے متعلقین خود ہی سوچیں کہ کیا ہم بھی دروازے کے روایتی پُش اور پُل والے سنڈروم کے اسیر تو نہیں ہو گئے اور بے روزگاری سے پیدا ہونے والی بے چینی میں اپنا کردار تو نہیں ادا کر رہے۔ خواندگی کی شرح ملک و قوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن خواندگی ایسی ہونی چاہئے جو وبال جان بننے کی بجائے ثمربار ثابت ہو۔ ان خرابیوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ہائر ایجوکیشن کمشن ایچ ای سی کو عملاً عضوِ معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب تک ہم اسے مؤثر اور مضبوط نہیں بنائیں گے۔ یہ خرابیاں بدستور قائم رہیں گی۔ اعلیٰ تعلیمی کمشن کو وافر فنڈز مہیا کئے جائیں اور اُسے الیکشن کمشن جتنے اختیارات حاصل ہونا چاہئیں۔ تعلیمی ادارے اور تعلیمی اداروں میں نئے شعبے قائم کرتے وقت اُس کی گائیڈ لائن کو پیش نظر رکھا جائے۔ مستحق اور لائق طلبا کو اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کیلئے دل کھول کر وظائف دئیے جائیں۔ ورنہ کسی قاعدے اور ضابطے کے بغیر ’’فروغ تعلیم‘‘ کی تحریک وبال جان ثابت ہوتی رہے گی۔ وسائل ضائع ہوتے رہیں گے۔ بے روزگاری پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔