ہمارا کفر اور چترال کے کافروں کا ایمان
1970ء میں پارٹی ٹکٹ کے محرومی کے امکان نے گوجرانوالہ سے مسلم لیگی سابق ممبر اسمبلی میاں منظور حسن کو پیپلز پارٹی میں دھکیل دیا۔ پھر یہ قومی اسمبلی بھی پہنچ گئے ۔ آج انہی کا پوتا سٹی پیپلز پارٹی گوجرانوالہ کا صدر ہے ۔ لالہ فاضل گوجرانوالہ سے اولین جیالوں میں سے تھے۔ شہر میں بھٹو پارٹی نے انہی کے گھر جنم لیا اور پروان چڑھی ۔ لیکن 2018ء کے الیکشن میں لالہ جی کی آل اولاد تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی تھی ۔ ہا رگئے ۔ لیکن ہار بڑی آبرو مندانہ تھی ۔ حلقوں کی انتخابی سیاست کرنے والے کسی الیکشن سے باہر نہیں رہ سکتے ۔ پھر انہیں کسی مقبول جماعت کا ٹکٹ بھی چاہئے ۔ کسی نظریہ سے وابستگی ان کے ہاں بے معنی ہوتی ہے ۔ لالہ فاضل کے جانشین لالہ اسد اللہ پاپا تحریک انصاف میں شامل ہونے سے پہلے بتا رہے تھے ۔ اپوزیشن میں میرے پاس محلہ کی زکوٰۃ کمیٹیاں بنانے کا اختیار بھی نہیں۔ یہ کمیٹیاں کسی غریب آدمی کو چند ہزار روپے دینے کے اختیار کا معاملہ ہوتا ہے ۔ کمیٹیاں بنانے کے اختیار سے محرومی میں، میں اپنے بہت سے مخلص ساتھیوں کی محرومی دیکھ رہا ہوں۔ اس گفتگو میں ہماری سیاست کا سارا مزاج اور ذائقہ موجود ہے ۔ پھر کچھ مقامی ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ بھی ہوتا ہے ۔ لالہ موسیٰ سے شائستہ اطوار قمر الزماں کائرہ ہوں یا پھر قصور سے نام نہاد کامریڈ چوہدری منظور ، یہ سب بھٹو کے نظریات سے وابستگی کے باعث پیپلز پارٹی سے چمٹے ہوئے نہیں۔وہی صرف ایڈجسٹمنٹ کامعاملہ ہے۔ جیسے معاملات طے پاتے پاتے رہ گئے تھے اور لاہور سے خواجہ سعد رفیق تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری بنتے بنتے رہ گئے۔ورنہ وہ آج نیب کی عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات بھگتنے کی بجائے تحریک انصاف کے نعیم الحق کے طور پر دکھائی دیتے ۔ خواجہ سعد رفیق کے ذکر سے یاد آیا۔ نیب نے بہت سے اہم لوگوں کے مقدمات کے سلسلے میں تحقیقات ختم کر دی ہیں۔ پانامہ پیپرز میں بھی 440 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا کہیں کوئی ذکر اذکار سننے میں نہیں آرہا۔ ابھی تک کسی پاکستانی سے بیرون ممالک سے کوئی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لا ئی جا سکی ۔ یار لوگوں نے افواہ اڑا دی تھی کہ اربوں ڈالروںمیں میاں فیملی سے ڈیل ہو گئی ہے ۔ثبوت میں سرکاری خزانہ میں کچھ ڈالر بڑھنے کوپیش کیا جا تارہا ۔ لیکن پاکستان کے خزانہ کے ’’راکھے‘‘ شیخ حفیظ نے یہ بتا کر سارا بھانڈا پھوڑ دیا کہ خزانہ میں بڑھوتری کسی ایک فرد کے باعث نہیں ۔ حکمران نواز شریف کی بیرون ملک روانگی چاہتے ہیں۔لیکن بہت کچھ آڑے آرہا ہے۔ ادھر چین سرکاری دورے کے دوران عمران خان اپنے لولے لنگڑے اقتدار کی احتساب کے معاملہ میں بے بسی کا رونا بھی روتے رہے ۔ گویا ملک میں اصلی طاقت کوئی اور ہے اور صرف وہی احتساب کی قوت رکھتی ہے ۔ پھر ایک مجرم کیلئے انسانی ہمدردی کے جذبات ، پھر اس کی من مانی شرائط، 7ارب روپوں کی گارنٹی ، کیا کرپشن صرف اتنی ہے ؟بندے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔کیا عمران خان صرف اقتدار چاہتے تھے ؟ چاہے یہ اقتدار جتنا مرضی کمزور اور لاچار ہو؟ کیا عمران خان اقتدار ملک میں تبدیلی لانے کیلئے نہیں چاہتے تھے؟ کیا ان کا بھی اقتدار برائے اقتدار کا ہی معاملہ تھا ؟ کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے ایک کالم میں منصور آفاق کا ایک شعر لکھا ہے ۔
اب مِرے کچھ بھی نہیں ہے آس پاس
ایک تھی جو خوش گمانی ختم شد
میانوالی سے تعلق رکھنے والے منصور آفاق عمران خان کی قلمی مدد کیلئے لندن چھوڑ کر پاکستان آئے ہوئے ہیں ۔ کیا یہ منصور آفاق کا تازہ کلام ہے ؟ یہ کالم نگار نہیں جانتا۔ البتہ یہ ضرور جانتا ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں لاچار عمران خان کے بہت سے چاہنے والے زور و شور سے ’’میرا رانجھن ہُن کوئی اور‘ ‘ کا ورد کر رہے ہیں۔ سستے جمعہ بازاروں میں یہ آواز زیادہ بلند سنائی دے رہی ہے ۔ پاکستان میںسیاسی جماعتیں عوام کیلئے نہیں بلکہ خواص کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ خواص یہ سیاسی جماعتیں انتخاب کی بجائے نامزدگی کے ذریعے چلاتے ہیں۔ عہدیداروں کی نامزدگی کا یہ طریق کار سیاسی کارکنوں سے ساری جرات چھین لیتا ہے ۔ بیچارے اپنے سیاسی رہنمائوں کو پرسش کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے پرستش کے سنگھاسن پر بٹھانے پر مجبور پائے جاتے ہیں۔ یہ تابعداری اور وفاداری درجہ بہ درجہ اوپر تک چلی جاتی ہے۔ یہ غلط ہے کہ ہمارا تاجر حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے ٹیکس نہیں دیتا ۔ سچی بات ہے کہ وہ سرے سے ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتا۔ دراصل ہمارے ہاں ہوس زیادہ ہے اور احساس کم۔ ہمیں ایسا معاشرہ چاہئے جہاں ہوس کم ہو اور احساس زیادہ ۔بہت سی کتابوں کے مصنف ملتان سے قمرعباس صابر ایڈووکیٹ اپنے کافروں کے دیس کے سفرنامے ’’سفر کیلاش کے ‘‘ میں وہاں سے صبرو استغناء کی اک ایمان افروز خبر لائے ہیں۔ کافروں کے اس رواج پر کئی ایمان قربان کئے جا سکتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ کیلاش معاشرے میں جس شخص کے بکروں کی تعداد 60سے بڑھ جائے وہ اضافی بکرے ذبح کر کے اپنے بھائی بندوں میں تقسیم کر دیتا ہے ۔ مزے کی بات ہے کہ وہ اس کے ساتھ گھی اور چاول بھی دیتا ہے ۔ چترال کے کافروں کا یہ پختہ ایمان ہے کہ ایک شخص کے پاس 60سے زیادہ بکرے اس کیلئے آفت کا پیغام ثابت ہوتے ہیں۔ ادھر ہمارے مسلمانوں میں ہوس اتنی کہ ا ن کا سیاست تک میں حصہ لینے کا مقصد خدمت کی بجائے محض اپنے سینکڑوں بکروں کے کئی ریوڑ وں میںمزید اضافہ ہوتا ہے ۔