علامہ محمد اقبال کے مختلف ادوارحیات
حکیم الامت شاعر مشرق مفکر اسلام حضرت علامہ محمد اقبال کی بصیرت افروزشخصیت سے صرف برصغیر پاک وہند کے ہی مسلمان مستفید نہیں ہوئے بلکہ وہ ایران ترک افغان قوموں کے ترجمان مفکر مانے جاتے ہیں ۔ آپ کے گہرے مطالعے اور طویل مشاہدہ نے عشق رسالتؐ کی مشعل کووہ ضوفشانیاں اور تابانیاں بخشیں جو دور حاضر میں کسی اور شخصیت کے مقدر میں دکھائی نہیں دیتیں۔ اقبال کی زندگی کے تمام ادوار تمام پہلو درخشاں اور ر وشن ہیں ۔ حیات با برکات کے ہر موڑ پر گردو پیش رہنے والے آپ کے قول و عمل سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بچپن کے ہم عمر ہوں یا کالج کے طالبعلم ساتھی ، اقبال کے اساتذہ ہو یاہم عصر مشاہیر سب آپکی فکری پرواز اور علمی وسعت کے قائل اور تعریف پر مائل دکھائی دیتے ہیں۔ بچپن میں سید زکی اور خوشیا،اقبال کے قریبی دوست تھے۔ زکی آپ کے استاد مکرم سید میر حسن کے بیٹے تھے ۔ اقبال ان کے ساتھ کبوتر بازی اور شطرنج کے شوقین تھے۔ دوست اقبال کو بالا اور کچھ بابا کہتے ۔خوشیا تو جگت چاچا تھا جو عمر میں اقبال سے شاید بڑے تھے مگر علامہ کی وفات کے بعد بھی زندہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار میں اقبال سے کہتا تھا کہ بالے یا ر چھوڑ ہم کس مصیبت میں پڑے ہیں کوئی چج کا کام کریں تو بالا عجیب گفتگو کرتا ۔ وہ کہتا خوشیا کبوتروں کو نیلے آسمان پر اوپر سے اوپر جاتے دیکھ کر آسمان کی وسعتوں میں اڑتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں بھی ان کیساتھ پرواز کر رہا ہوں میرے اندر عجیب و غریب سوچ اور جوش برپا ہوتا ہے۔
میر غلام بھیک نیرنگ برصغیر کے مشہور شاعر ادیب ہیں وہ اپنی علامہ سے سنگت پر بہت کچھ تحریر کر چکے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں طالبعلم تھے مگر اقبال ان سے سینئر تھے ۔ میر صاحب رقم طرازہیں کہ ایک شام ہوسٹل میں اپنے ہم جماعت چوہدری جلال دین کے ساتھ بھاٹی گیا تو راستے میں شیخ اقبال سے ملاقات ہوئی پھر اقبال کی شاعری دیکھنے سے میری آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔ میں نے اس سے قبل اہل پنجاب کی جو اردوشاعری دیکھی تھی ا س سے اردو گوئی کا معتقد نہ تھا مگر اقبال کی شاعری دیکھ کر رائے تبدیل کرنی پڑی ۔ مجھے معلوم ہوا کہ ذوق سخن کا اجارہ کسی خطہ زمین کو نہیں ہوتا ، جب بندشوں کی ایسی چستی کلام کی روانی اور مضامین کی یہ شوخی ایک طالب علم کے کلام میں ہے تو خدا جانے اس پنجاب میں کتنے زبان کے چھپے رستم پڑے ہونگے ۔ میں اقبال کا دل و جان سے قائل ہوگیا پھر اقبال کومیں نے اپنا کلام بھی بھیجا ۔سرسری ملاقات کے بعد اقبال سے زیادہ صحبت کا موقع تب ملا جب وہ کالج بورڈنگ ہائوس میں داخل ہوئے پھر کیا تھا میرے علاوہ جو بھی ان کے دوست تھے اقبال کے کمرے میں وقت گزارتے اور وہ میر فرش بنے بیٹھے رہتے ۔ حقہ جب بھی ان کا ہمدم و ہم نفس تھا اقبال کی طبیعت میں ظرافت تھی ادبی مباحثے ہوتے ۔ شعر کہے اور پڑھے جاتے ۔ ہماری سہ سالہ صحبت میں اقبال اپنی ایک سکیم بار بار پیش کرتے وہ تھا اردو شاعری کی اصلاح و ترقی اور اس میں مغربی رنگ پیدا کرنا تھا پھر اقبال سے ملنے 1901ء میں سیالکوٹ جانا ہوا جہاں حضرت علامہ قبلہ میر حسن کی زیارت کے علاوہ اقبال کے والدبزرگ شیخ نور محمد کی بابرکت شخصیت سے بھی شرف ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا ۔ علاوہ ازیں اقبال کے فرزند آفتاب اقبال اور بھتیجے اعجاز سے بھی ملے ۔ اقبال کے قریبی دوست جھنڈے خان اور سر میاں فضل سے ملاقات ہوئی ۔ دونوں حضرات نے شرارت کے طور پر گلاس میں سرخ رنگ کا پانی کچھ اس اندا زسے پیش کیا پھر وہ اصرار اور میں انکار کرتا رہاآخربتایا کہ یہ شراب نہیں تو میں نے پی لیا ۔مخزن اردو کا ناقابل فراموش جریدہ تھا جسے اردو کی تاریخ میں ہمیشہ فضیلت حاصل رہے گی۔منشی دیا نندرائن ،حسرت موہانی ، مولانا ابولکلام آزاد جیسے بیشمار اردودان کو مخزن نے متعارف ہی نہیں کرایا بلکہ قبول عام بخشا ۔ شیخ عبدالقادر کی ہی جو ہر شناسی اقبال کو منظر عام پر لائی۔ شیخ عبدالقادر کا کہنا ہے کہ اقبال کی وجہ سے مخزن کو چارچاند لگے اور مخزن کی وجہ سے اقبال کا جوہر روز بروز چمکتا گیا ۔ شیخ عبدالقادر نے ہی اقبال کی پہلی کتاب بانگ درا کا دیپاچہ لکھا۔
علامہ کا معمول تھا کہ جاوید منزل میں خود ایک بڑے پلنگ پر بنیان او ر تہمدجیسے سادالباس میں بیٹھتے اور قریب کرسیاں ہوتیں آپ سے ملنے والے طلبہ ، وکلا ، علماء ، ہائی کورٹ کے جج اور صوبائی وزیر آتے ۔ معززین شہر بھی ہوتے اور معمولی درجے کے لوگ بھی شامل محفل ہوتے ۔ علامہ سب کو یک نظر دیکھتے یکساں برتائوکرتے کسی بڑے کے آگے جھکتے نہ چھوٹے سے بے اعتنائی کرتے ۔ سب سے بے تکلف و بے تصنع گفتگو کرتے ۔
مولانا عبدالمجید سالک اپنی تصنیف " یاران کہن" میں حضرت علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ڈاکٹر اقبال ہمارے عصر کے نابغہ اعظم تھے ۔ جس کی شخصیت ہمارے ملک کے علم و ادب ملت اسلامیہ کے افکار و تصورات اور شعرو سخن کی مجالس پر رحمت ابربن کر چھائی رہی آج وہ دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کا فکر آج بھی پڑھے لکھے مسلمانوں کے خیالات کی رہنمائی کر رہا ہے اور مدت دراز تک کرتا رہے گا ۔(جاری)