بابر، مسجد اور علامہ اقبال
بھارتی ہندو پچھلے کئی سالوں سے اپنی تاریخ درست کرنے کی کوشش کر تے نظر آرہے ہیں ۔ ایسی تاریخ جس کا حقیقت سے دور دور کا کہیں پتہ نہیں چلتا مگر وہ اپنے پرکھوںکو ایک جنگو اور بہادر قوم بنا کے پیش کرنے کیلئے من گھڑت کہانیوں پر فلمیں ,ڈرامے بناتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کے نام بنے شہروں کے نام بدلتے ہیں۔ویسے تو انہیں سب ہی مسلمان حکمرانوں سے بغض ہے اور وہ گائے بگائے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن اس مغل بادشاہ کا نام سنتے ہی انہیں انکے پرکھوں کی چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں کہ وہ ہر کوشش سے اس بادشاہ کا نام و نشان ہندوستان کے صفحات سے مٹادینا چاہتے ہیں ۔اس بادشاہ کا نام ہے۔ ظہیر الدین محمد بابر 1483 کو پیدا ہونے والا یہ مغل بادشاہ ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی بنا۔شہنشاہ بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تھی اور علامہ اقبال نے مسلمانوں کیلئے ایک پھر ایک علیحدہ ریاست کا ۔طریہ پیش کیا تھا۔بابری مسجد کا مسئلہ کئی دہائیوں سے بھارتی عدالتوں میں زیر بحث تھا ۔اور 9نومبر کو جس دن پاکستانی قوم یوم علامہ اقبالؒ مناتی ہے اسی دن بھارت کی سپریم کورٹ نے ہندوو انتہا پسندوں کو خوش کرنے کیلئے بابری مسجد کی زمین ہندووں کے حوالے کرنیکا حکم نامہ جاری کرکے مسلمانوں کو 5 ایکٹر زمین دینے کا کہا ۔
ظہیر الدین کی ماں پیار سے بابر (شیر) کہتی تھی۔ اس کاباپ عمر شیخ تیمور کی نسل سے اور ماں قتلغ نگار خانم چنگیز خان کی نسل سے تھیں۔ اس طرح اس کی رگوں میں دو بڑے جنگجووں اور فاتحین کا خون تھا۔اسے نے شروع سے ہی سے مشکلات کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ۔بارہ برس کی عمر میں جب بابر کے باپ کا انتقال ہو ا تو اس کے چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔ کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر 1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔ یہاں سے اس نے ہندوستان کی طرف اپنے مقبوضات کو پھیلانا شروع کیا۔ اس وقت سلطان ابراہیم لودھی دہلی کا حکمران تھا جو اپنے امرا اور فوج میں مقبول نہ تھا۔ وہ ایک شکی مزاج انسان تھا، لاتعداد امرا اس کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے۔بابر ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔جب بابر اور ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان میں 1526ء میں پانی پت کے میدان میں سامنا ہوا ۔ سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا اور بابر فاتح رہا۔ اسی جنگ میں فتح پانے کے بعد بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ دہلی کے تخت پر قبضہ کر نے کے بعد سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو فرو کیا پھر گوالیار، حصار، ریاست میوات، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔ 26 دسمبر، 1530ء کو آگرہ میں انتقال کیا ۔یوںبارہ سال کی عمر سے مرتے دم تک اس بہادر بادشاہ کے ہاتھ سے تلوار نہ چھٹی اور بالآخر اپنی آئندہ نسل کیلئے ہندوستان میں ایک ایسی حکومت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوا جہاں انہوں نے صدیوں راج کیا۔بابر کی زندگی پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف تلوار کا دھنی تھا، بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا۔ فارسی اور ترکی زبانوں کا شاعر بھی تھا اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا۔اور شاندار تعمیرات کا بھی شوقین تھا۔اسی کے حکم سے 1527ء میں ایودھیا میں اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکارمسجد تعمیر کی گئی جسے بابری مسجد کا نام دیا گیا۔ سوا تین سوسال اس عظیم الشان مسجد میں مسلمان اللہ ہو اکبر کی صدائیں بلند کرتے رہے۔ اور کسی نے وہاں رام کی جنم بھومی کی بات نہ کی۔جب مغل سلطنت کا زوال شروع ہوا توانگریز چالبازوں کی مہربانی سے ہندو وں نے بابری مسجد کیخلاف آواز بلند کرنا شروع کی ۔ذرا تاریخ کے پرتوں کو کھولیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1857 جنگِ آزادی سے چار سال پہلے یعنی 1853 میں ء ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات ہوئے۔تقسیم ہند کے بعد بھارتی حکمرانوں نے قانون پاس کیا کہ جو مذہبی مقام جس حال میںہے اسے اسی حال میں رہنے دیا جائے گا مگر صرف دو سال بعد (1949) گاندھی کے قاتلوں نے طاقت کے نشے میں بابری مسجد میں رام کی مورتیاں خود ہی رکھوا کے انہیں خود ہی دریافت کر کے ایک طوفان کھڑا کر دیا اور حکومت نے شر پسند ہندووں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے بابری مسجد کو نہ صرف متنازع مقام قرار دے دیا بلکہ مسجد عبادت کیلئے بند کروا دی۔ 1991ء ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت قائم ہوتے ہی مسجد کے خلاف محاذ گرم کردیا گیا اور 1992ء وشوا ہندو پریشد کے حامیوںنے دن دیہاڑے اس تاریخی مسجد کو شہید کردیا۔ حالیہ فیصلے پر نہ صرف مسلمان بلکہ بھارت کے بہت سے ہندوو بھی ناخوش ہیں۔ اب بھارتی مسلم راہنما اپنے نوجوانوں کے اندر عقابی روح پیدا کرنے کیلئے حضرت اقبال کے فلسفہء خودی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس حکم سے بھارت کے مسلمان سخت غصے میں ہیں وہ سر عام اس ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔ علامہ اقبال کے شعر پڑھ رہے ہیں او ر مسلمانوں کو سر اٹھا کے جینے کا پیغام دے رہے ہیں وہ باطل سے ٹکرانے کیلئے مرد مومن بن کے اپنے حق کیلئے نکل رہے ہیں۔ لگتا ہے اس ایک فیصلے سے ان کے اندر کا سارا خوف نکل گیا ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک بار کہا تھا کہ مسلمانوں کو زیادہ وقت دبا کے نہیں رکھا جاسکتا ہے جب کبھی ایسا ہو تو ان کے اندر سے ’بابر‘ کے روپ میں کئی لیڈر سامنے آجاتے ہیں۔ آج بھارت کے بہت سے مسلم راہنما حضرت اقبال کے اشعار سے مسلم قوم میں جذبہ خودی پیدا کر رہے ہیں ۔بے شک حضرت اقبال کا کلام غلام قوموں کو آزادی کا رستہ دکھاتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ان کے اجداد نے کیسے دنیا پر اسلامی پرچم لہرایا۔