ایشین کرکٹ کونسل کا اجلاس‘ بنگلہ دیش کو 2 سال کیلئے صدارت مل گئی
لاہور( نمائندہ سپورٹس )ایشین کرکٹ کونسل کی سالانہ جنرل میٹنگ ایک دہائی سے زائد عرصے بعد پاکستان میںہوئی جہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے اے سی سی کی صدارت بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے سپرد کردی۔لاہور میں منعقدہ اے سی سی سی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق تمام رکن ممالک اور ان کے عہدیداروں نے شرکت کی جہاں شرکا کو اے سی سی کے ترقیاتی منصوبوں، ٹورنامنٹس اور 2017 میں ہونے والے پروگراموں پر بریفنگ دی گئی۔اے سی سی کے صدر احسان مانی نے 2018 سے 2020 کی مدت کے لیے کونسل کی صدارت بنگلہ دیش کر کٹ بورڑ کے صدر ناظم الحسن کو سونپ دی۔صدر منتخب ہونے کے بعد ناظم الحسن نے کہا کہ میں اے سی سی کا صدر منتخب ہونے پر تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اور میری پہلی کوشش ایشیا کے کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو جوڑنا اور خطے میں کھیل کا فروغ ہے۔ اے سی سی سے کئی سال تک منسلک رہنے کا تجربہ ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ اے سی سی کو عروج پر پہنچانے میں مدد دے گا۔اس موقع پر افغانستان کو اے سی سی کا مستقل رکن بھی منتخب کرلیا گیا۔اجلاس میں کرکٹ کو ایشین گیمز سمیت اسی طرح کے دیگر مقابلوں میں شامل کرنے پر بھی غور کیا گیا اورکہا گیا کہ 2022 میں چین میں ہونے والی ایشین گیمز کے لیے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔اراکین نے پاکستان میں اے سی سی کے ذریعے بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے اے سی سی اراکین اور آئی سی سی کے سی ای او ڈیوڈ رچرڈسن کی پاکستان آمد پر شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں ناظم الحسن کو اے سی سی کے نئے صدر کے طور پر خیرمقدم کرتا ہوں اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ وہ خطے میں کھیل کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ کرکٹ ہواور یوتھ ایشیا کپ کے لیے بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ کی ٹیمیں اگلے ماہ پاکستان آئیں گی۔نائب صدر اے سی سی عمران خواجہ کا کہنا تھا کہ اے سی سی کرکٹ میں بہتری کے لیے اقدامات کرتا رہے گا اس لیے اے سی سی کو مزید مضبوط کرنا ہو گا۔اجلاس میں افغانستان کو فل ممبربنادیا گیا۔اے سی سی کے نومنتخب صدر ناظم الحسن کا کہنا تھا کہ بھارتی، پاکستانی، سری لنکن اور بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ آپس میں کھیلنا چاہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ کرکٹ بورڈز کا مسئلہ نہیں بلکہ کچھ سیاسی مسائل ضرور ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے۔