گزشتہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی حکومت نے پنجاب میں محکمہ صحت کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ ایک وزیر کی بجائے دو وزیر دوسیکرٹری اور ان کے نیچے بے شمار افسران، دونوں کے لئے الگ الگ جدید ترین سہولتوں کے ساتھ عالی شان دفاتر، بظاہر محکمہ صحت انتظامی طور پر بہتر بنانا مقصود تھا مگر عملاً ایک ہی محکمہ کو دو حصوں میں اس طرح بانٹا گیا کہ جن کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔ وہ رل گئے۔ عوام بھی مطمئن نہ ہونے اور اس محکمہ کی اصل روح یعنی ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی عذاب میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ ایک محکمہ کے دونوںحصوں نے آپس میں سرد جنگ جاری رکھی جس کا سب سے زیادہ نشانہ ڈاکٹر بنے۔ اب نئی حکومت ہے تبدیلی کی نظر خلق خدا سوچ رہی ہے کہ کب عملی طور پر تبدیلی کا آغاز ہوگا۔ محکمہ صحت پنجاب کی باگ ڈور ایک پروفیشنل سینئر ڈاکٹر یاسمین راشد کو سونپی گئی ہے جنہوں نے لاہور کے تاریخی ہسپتال لیڈی ولنگڈن میں خدمات انجام دینے کے بعد تھیلسمیا کے شکار بچوں کے لئے ایک فلاحی ادارہ بھی کامیابی سے چلایا۔ سیاست میں جن کی پہچان سابق وزیراعظم نوازشریف کے حلقہ سے بھاری ووٹوں کے حصول کے ساتھ پنجاب میں ماضی کے مقبول سیاستدان اور وزیر غلام نبی سے نسبت کے حوالے سے ہے۔ ان کے آنے کے بعد محکمہ صحت کی وزارت تو دو کی بجائے ایک دفتر میں آ گئی ہے مگرمحکمہ صحت کے دونوں حصے اعلان کے باوجود ایک نہیں ہو سکے۔ ایک ڈاکٹر جو عہدے اور ہسپتال کے حوالے سے سپیشلائز ہیلتھ کیئرکے ماتحت ہو وہ اپنی لیئن لیو Lien leave اور دوسرے معاملات کے لئے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے تابع ہوتا ہے۔ لاہور کے ایک ہسپتال کا ایم ایس اس کی درخواست کو پہلے سپیشلائز ہیلتھ کیئربھیجتا ہے اور پھر وہاں سے فارورڈ ہوکر پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ سیکرٹریٹ جاتی ہے۔ اس دوہرے اور آپس میں محاذ آرائی کی سرد جنگ میں لپٹے ہوئے ماحول میں ڈاکٹروں پر جو بیتتی ہے وہ اس میں بہتر جانتا ہے ادھر المیہ یہ ہے کہ گزشہ حکومت افسران سے لے کر وزراء تک ہر ہفتے کھلی کچہری منعقد کیا کرتے تھے۔ اس طرح سرکاری اہلکاروں کے روئیے سے دکھ اہلکار اور عام لوگ متعلقہ سینئر اور صاحب اختیار آفیسر اور متعلقہ وزیر تک براہ راست اپنا مسئلہ پیش کرتے تھے۔ موجودہ حکومت میں یہ دروازے بھی بند ہیں۔ میں نے صوبائی وزیر صحت کے دفتر میں رحیم یار خان او ایسے ہی دور دراز کے علاقوں سے آتی ہوئی اور اس محکمے کے متعلقہ چھوٹے چھوٹے مرعونوں کی بلیک میلنگ کا شکار لیڈی اہلکاروں کو روتے ہوئے دیکھا ہے مگر وہ ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات اور اپنا دکھ سنائے بغیر مایوس ہو کر واپس لوٹ گئیں ایک لیڈی ڈاکٹر کو اکثر دفتری موشگافیوں اور رشوت کے بغیر سروس کرنے کی عادت کے باعث اگر اہل کار ایسی صورتحال پیدا کردیں کہ اسے آٹھ نو مہینے تنخواہ ہی نہ ملے تو وہ کہاں جائے۔ ڈاکٹر یاسمیں راشد خود انسان دوست ہونے کی شہرت رکھتی ہیں۔ کیا وہ خود اور اپنے سیکٹریٹ کے سینئرترین افسر کو ہفتے میں ایک دن براہ راست اپنے محکمہ کے ڈاکٹروں خاص طور پر لیڈی ڈاکٹروں کے معاملات اور شکایات کے ازالے کے لئے وقت نہیں نکال سکتیں۔ کیا تبدیلی اس دورمیں اس احساس کو عام نہیں ہونا چاہئے کہ اب صورتحال بدل رہی ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ پہلے والی کھلی کچہریوں کی سہولت بھی نہیں رہی۔ اگر محکمہ صحت کو چلانے والے ڈاکٹر، پیرا میڈیکل سٹاف ہی نچلے سرکاری اہلکاروں کی ستم کاری کا شکار رہیں گے تو عوام کے لئے ان کی کارکردگی کیسے بہتر ہو پائے گی۔ میری تجویز ہے کہ صرف محکمہ صحت کی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد ہی نہیں تمام وزراء کواپنے دفاتر میں ایک دن مخصوص اوقات اپنی ٹیم یعنی میڈیکل سٹاف، ڈاکٹروں اور معاون عملے سے ملاقات کے لئے وقف کرنا چاہئے۔ اس طرح شکایات کے لئے ایک ونڈو مخصوص ہو جہاں آنے والی ایسی درخواستوں کو وہ ذاتی طور پر مانیٹر کریں اگر وزراء یہ سب نہ کر سکے تو پھر یہی تاثر عام ہو گا کہ تبدیلی کے نعروں کے ساتھ آنے والے بھی نمک کی کان میں آ کر نمک میں ڈھل گئے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024