ترقی و خوشحالی کیلئے قرض‘ امداد اور معاونت سے نجات پانا ہوگی
آئی ایم ایف کیجانب سے مزید سخت شرائط‘ ٹیکس لگانے‘ نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا مطالبہ
آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے میںحکومت کو مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ اس نے اس کیلئے شرائط سخت کردی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے نے بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنے اور نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کرنے کی بھی شرائط رکھی ہیں۔ آئی ایم ایف نے نئے ٹیکسز کا مطالبہ بھی کر دیا ہے جبکہ ٹیکس اصلاحات کرنے کے اقدامات کرنے کو بھی کہا ہے۔ وفد کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کئے بغیر آمدن میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ وفد اور پاکستان کے درمیان تکنیکی و پالیسی مذاکرات کے الگ الگ ادوار ہوئے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مالیاتی پیکیج کیلئے حتمی مذاکرات جاری ہیں جو 20 نومبر تک رہیں گے۔
پاکستان میں سیاسی اور عوامی حلقے ہی نہیں ماہرینِ معیشت بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کیخلاف ہیں۔ خود وزیراعظم عمران خان نے بھی کنٹینر پر کی گئی اپنی مشہور تقریروں میں ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بنے اور حکومت کو قرض لینے کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا، تو وہ ایسا وقت آنے سے پہلے خودکشی کر لیں گے۔یہ تو ان کا سیاسی بیانیہ تھا جو انھوں نے اس وقت کی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے حصول کیلئے ہونے والے مذاکرات کے وقت دیا تھا۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب اخراجات آمدن سے بڑھ جائیں تو انہیں پورا کرنے کیلئے ہاتھ پائوں مارنا پڑتے ہیں۔یہ حکومتی سطح پر ہو توجہاں سے ممکن ہو قرض لینا پڑتا ہے۔پاکستان جیسے ممالک کی نظر آئی ایم ایف پر ہوتی ہے جو قرض خواہ ممالک کو مایوس نہیں کرتا مگر پہلے اپنی شرائط منواتا ہے جسے کڑوی گولی قرار دیا جاتا ہے مگر اس سے کوئی حکومت گریز نہیں کرتی شاید سامنے یہ حقیقت ہوتی ہے کہ قرض جب ادا کرنا ہوگا دیکھ لیں گے اور کونسا ہم بر سر اقتدار ہونگے،اسی سوچ نے پاکستان کو 28 ہزار ارب روپے کا مقروض کردیا ہے۔ آئی ایم ایف قرض خواہ ملک پر قرض دیتے وقت کچھ شرائط عائد کرتا ہے۔ مختلف صورتحال میں یہ شرائط مختلف ہو سکتی ہیں لیکن بعض شرائط ایسی ہیں جو پاکستان کے تناظر میں پچھلی چار دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ لاگو کی جا رہی ہیں۔پاکستان نے پہلی بار ستّر کی دہائی میں آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا اسکے بعد سے اب تک ہر آنیوالی حکومت نے قرض حاصل کیا سوائے فوجی آمر ضیا الحق کے جن کے زمانے میں افغان جنگ کی وجہ سے ڈالر کی اتنی ریل پیل تھی کہ انھیں قرض لینے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں گو پاکستان نے آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات حاصل کرلی تھی مگر انہوں نے پاکستان کی معیشت کو بلندیوں تک پہنچانے کا نادر موقع مشاورت سے ماورا تن تنہاء فیصلے کرنے کے زعم میں ضائع کردیا۔ حالیہ برسوں میں شام پر حملوں کیلئے امریکہ نے ترکی سے ایئربیس مانگاتو ترکی نے 55 ارب ڈالر کی ڈیمانڈ کی۔ صدر مشرف محض ایک امریکی نائب وزیر دفاع آرمٹیج کی کال پر ڈھیر ہوگئے اور امریکہ کو افغانستان پر یلغار کرنے کیلئے پورا پاکستان اسکی شاہراہوں اور تمام ہوائی اڈوں سمیت پیش کر دیا۔ آج پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کی ایک وجہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا غیرمشروط ساتھ دینابھی ہے۔ یہ جنگ اب تک جاری اور امریکہ بدستور پاکستان کی خدمات سے بلامعاوضہ استفادہ کررہا ہے۔ امریکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے مالی نقصانات کا ازالہ کر دے جو ایک سو بیس ارب ڈالر ہے تو پاکستان کی معیشت مضبوط ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے سامنے قرض کیلئے دست دراز نہیں کرنا پڑیگا۔ امریکہ نے تو پاکستان کی وہ ادائیگیاں بھی روک رکھی ہیں جن کا خود وعدہ کیا تھا۔ امریکہ پاکستان کے نقصان کا ازالہ کر دیگا۔ ’’ایں خیال است و محال است و جنون است‘‘۔
آج معیشت کی بحالی کیلئے پاکستان کو قرض کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں انتخابی مہم کی طرح باربار اس عزم کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے کیلئے نہیں جائینگے۔ آئی ایم ایف کے بغیر بحران سے نکلنے کی خوش فہمی جلد دور ہوگئی۔ ان پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا واضح اعلان نہیں کیا گیا۔ وزیر خزانہ اسدعمر نے عندیہ دیا کہ ہو سکتا ہے آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑے۔ اس پر امریکہ کی طرف سے آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ قرض کے حوالے معاملات سے سختی سے منع کردیا گیا۔ کہا گیا آئی ایم ایف سے قرض لے کر پاکستان چین کو ادائیگیاں کریگا۔ جس کی خاطر پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی۔ جس کا امریکہ کی طرف سے ازالہ ممکن ہے جبکہ 70 ہزار پاکستانیوں کی جانی قربانیوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اس امریکہ کی طرف سے معاندانہ رویہ اور طوطا چشمی افسوسناک ہے۔
آئی ایم ایف کے پاس حکومت کو سارے دروازے بند نظر آنے پر جانا پڑا۔ اسدعمر وفدکے ساتھ انڈونیشیا میں عالمی مالیاتی ادارے کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ آئی ایم ایف نے اس وفد کی پاکستان سے روانگی سے قبل اپنی شرائط پیش کردی تھیں۔ یہ قابل قبول نہ ہوتیں تو وفد کو وہاں جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مگر بادل نخواستہ ان کڑی شرائط سے اتفاق کیا گیا۔ مذاکرات کامیاب ہوگئے۔ خوش قسمتی سے وفد کی واپسی پر سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان کو دعوت ملی‘ یہ سعودی عرب کا وزیراعظم کا دوسرا دورہ تھا۔ چند ہفتوں میں حالات تبدیل ہوچکے تھے۔ سعودی عرب کو خشوگی قتل کے بعد عالمی سطح پر شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ پاکستان اس مشکل وقت میں سعودی حکمرانوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا تو اس نے بھی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے پاکستان کیلئے بڑے پیکیج کا اعلان کیا جس سے حکومت کے بقول فوری ادائیگیوں کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اسکے بعد چین نے بھی سی پیک پر نئی حکومت کا فوکس برقرار رکھنے کیلئے سعودی عرب سے بھی بڑا مالی پیکیج دیا جس کی مالیت کی تفصیلات بتانے سے دونوں ممالک گریز کررہے ہیں۔ تاہم حکومت مالی بحران سے خود وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات کے مطابق نکل چکی ہے۔ قرض کیونکہ ہوشربا ہے‘ کئی مدات میں مزید رقوم کی ضرورت ہے اس لئے آئی ایم ایف سے قرض کا آپشن بدستور موجود ہے۔
کسی بھی ملک کی منزل مراد ترقی و خوشحالی ہوتی ہے جس سے ہم بہت دور ہیں۔ قرضوں سے ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے۔ سارے قرض چکتا کرکے ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوسکے گا۔ سعودی عرب اور چین نے پاکستان کے ساتھ مالی تعاون کیا ہے۔ اس میں سے بھی بڑی رقم لوٹانا پڑیگی۔ بڑے فخر سے کہا جارہا ہے چین کے قرض کی واپسی تین سال بعد شروع ہوگی۔ جب پہلی بار قرض لیا گیا تھا تو بھی واپسی کی ایک تاریخ طے ہوئی تھی۔ پھر قرض اتارنے کیلئے بھی قرض لیا جانے لگا‘ اب تو سالانہ 8 ارب ڈالر سود کی ادائیگی کی مد میں واجب الادا ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے قرض حبس میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا سمجھا جاتاہے جبکہ اسکی کڑی شرائط کڑوی کسیلی لگتی ہیں۔ آئی ایم ایف کو بھی اپنے قرض کی واپسی کی گارنٹی سے دلچسپی ہونی چاہیے۔ وہ عوام کش شرائط کیوں عائد کرتا ہے جسے ہم پاکستان کی خودمختاری کیخلاف قرار دیتے ہیں مگر قرض لینا کونسی خودداری ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبات سے قبل ہی حکومت نے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا تھا۔ آئی ایم ایف مزید اضافے پر زور دے رہا ہے۔ سبسڈی ختم کرنے کو کہہ رہا ہے۔ خسارے میں جانیوالے اداروں کی نجکاری اسکی شرائط میں شامل ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے لوگ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نہیں‘ ان کو اپنی بات سمجھائی جاسکتی ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے کے بجائے ٹیکس چوری کے راستے روکنے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ادھار پر ادھار لے کر سبسڈی بدانتظامی کے زمرے میں آتا ہے۔معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو‘ اخراجات کے مقابلے میں آمدن دگنا یا اس سے زیادہ ہو جائے تو سبسڈی کیا بہت سی سروسز یوٹیلٹی بلز سمیت فری کی جاسکتی ہیں۔ تحریک انصاف حکومت میں میرٹ کے کلچر کے فروغ کیلئے کوشاں ہے۔ اس پر عوامی حلقوں کو اعتماد و اعتبار بھی ہے۔ خسارے میں جانیوالے اداروں کی نجکاری کی نہیں انکو بحال اور منافع بخش بنانے کی ضرورت ہے۔ ان اداروں کے صحیح ہاتھوں میں آنے کے بعد اسکے روشن امکانات ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف پر واضح کرنے کی کوشش کرے کہ وہ روایتی حکومت نہیں‘ ملکی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بہت کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتی ہے تو شاید آئی ایم ایف اپنی شرائط پر زیادہ زور نہ دے۔ اگر وہ اپنی شرائط پر بضد رہتا ہے تو اس سے یہی تاثر ابھرے گا کہ وہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں دیکھ سکتا بلکہ وہ کسی خاص ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔