اتوار‘ 9؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 18 ؍ نومبر2018ء
پولیس کوہاف اور فل فرائی کی کسی صورت اجازت نہیں دینگے۔مراد علی شاہ
اول توکوئی شاہ جی سے پوچھے کہ جناب ان سے اجازت کون طلب کرے گا۔ پولیس کس سے اجازت کب طلب کرتی ہے۔ وہ ہاف فرائی کرے یا فل فرائی جس کے ہاتھ میں انڈا یا مرغ آتا ہے فیصلہ تو وہی کرتا ہے۔ اس نے کیا کرنا ہے۔ 70 سال سے پولیس کا نظام اورکلچر اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ کوئی بھی ان کودرست نہیں کر سکتا کیونکہ جنہوں نے درست کرنا ہوتا ہے وہی اسے اپنی من مرضی کے مطابق چلانے اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو جناب جو لوگ خود پولیس کے نظر کرم کے محتاج ہوں جن کی اپنی ’’ٹوہر‘‘ رعب داب پولیس کے دم قدم سے ہو وہ بھلا اس بے لگام محکمہ کو لگام کیسے ڈال سکتے ہیں۔ اُمید تھی کہ پڑھے لکھے لوگ اس محکمہ میں پبلک سروس کمشن کے توسط سے آئیں گے تو کچھ بہتری آئے گی مگر افسوس وہ بھی اس نمک کی کان میں گھس کر نمک ہو گئے۔ میرٹ سے ہٹ کر سفارش پر بھرتی لوگوں کے سیلاب میں وہ بھی بہہ گئے۔
اب تو محکمہ پولیس میں کچھ یہ حال ہے کہ …؎
یہ شہر طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے
پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے کہ ابلیس
معذرت کے ساتھ یہ لکھا ہے کیونکہ فی الحال ہمارا فل یا ہاف فرائی ہونے کا یا ٹکورکرانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ ڈاہڈے بندے میں حاکم بھی ہیں وہ پولیس کو لتاڑ سکتے ہیں۔ عام آدمی کیا اچھا خاصا شریف آدمی بھی شعوری بالاشعوری طور پر یہ حرکت نہیں کر سکتا ہاں حالت غیر میں ہو تو الگ بات ہے۔ تب تووہ فلک کی سیر کر رہا ہوتا ہے اور پولیس بھی ایسے بندوں پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہے تاکہ گلے نہ پڑ جائیں۔
٭٭٭٭٭
صدر مملکت لاہور ائیر پورٹ پر 32 گاڑیوں کا پروٹوکول دیکھ کر برہم
صدرمملکت عارف علوی اپنے پہلے دورہ پر لاہور آئے تو ہوائی اڈے پر 32 گاڑیوں کا عظیم الشان پروٹوکول دیکھ کر انہیں وحشت ہونے لگی۔ انہوں نے ضروری معمولی پروٹوکول کے علاوہ باقی گاڑیوں کو ساتھ آنے سے روک دیا اور سادہ پروٹوکول کے ساتھ گورنر ہائوس چلے گئے۔ ان کا یہ اقدام ان کی سادگی اور شاہانہ طرز جلوس سے بیزاری کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر جناب صدر مملکت گزشتہ دنوں آپ بلوچستان کے دورے پر گئے تھے۔ وہاں ائیر پورٹ سے گورنر ہائوس تک آپ کو جس قسم کاوی آئی پی پروٹوکول دیا گیا بے شک آپ کا حق ہے مگر وہاں یہ سادگی نہ دکھائی گئی۔
بے شک سکیورٹی کی وجوہات پر ہی ایسا کیا گیا ہو گا۔ مگر اسلام آباد اور کراچی میں بھی یہی پروٹوکول نظر آتا ہے۔ کہیں یہ اس بات کا ثبوت تو نہیں کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال سب سے بہتر ہے مگر اس کی تعریف کرنا کوئی مناسب نہیں سمجھتا ۔ وجہ جو بھی ہو‘ اب نئی حکومت کا ‘تبدیلی کا دور ہے یہ سب شاہانہ پروٹوکول کوئٹہ ہو یا کراچی پشاور ہو یا اسلام آباد صدر صاحب اسی طرح ختم کرائیں جس طرح لاہور میں کرایا۔
٭٭٭٭٭
بیوی کو روز جوتے مارتا ہوں۔ اس نے خنجر مار دیا توکیا ہوا۔ شوہر کا مقدمہ درج کروانے سے انکار
تاسف ہوتوایسا ہو جو پچھلے سارے گناہوں کی تلافی بن جاتا ہے۔ شاید یہی سچی محبت بھی ہے ۔ اب اس شوہر کی یاری کہہ لیں یا دلداری۔ اس پر اب ملزمہ بیوی صدقے واری کیوں نہ ہو۔ جس نے ’’تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا‘‘ والا بیان دے کراس بیوی کو بھی رلا دیا ہو گا جس نے تنگ آمد بجنگ آمد روز روز کی مارسے تنگ آکر شوہر کوخنجرکے وار کر کے زخمی کردیا۔ ویسے یہ صرف جوابی کارروائی تھی اگر بیوی کے دل میں انتقام ہوتا تووہ قاتلہ بننے میں ذرا بھی دیر نہ لگاتی اور کام تمام کر کے ہی رہتی۔ مگر روز روز کی مار پیٹ سے تنگ آکر اس نے اپنے مجازی خدا کوچوٹوں کے درد کا احساس دلایا ہے۔ اب یہی بات شوہر کو بھی سمجھ آ گئی ہے تو اچھا ہے دونوں دل صاف کر لیں ایک مرتبہ پھر پیار و محبت کی زندگی کا آغازکر کے دیکھیں اس میں بہت مزہ ہے۔
شوہر کی یہ محبت دیکھ کر تو لیلیٰ مجنوں، شریں فرہاد، ہیر رانجھا، سسی پنوں سے لے کر رومیوجیولیٹ تک رشک کر رہے ہوں گے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی‘‘ اب تو یہ بھاگھ بھری اپنے مجازی خدا کی زندگی اور صحت کے لئے دعائیں کر رہی ہو گی جو موت و زیست کشمکش میں مبتلا ہے اور اس نے بیوی کے خلاف مقدمہ کرانے سے انکار کردیا ہے یہ ہوتی ہے محبت جو نجانے کیوں آخری وقت میں ہی یاد آتی ہے پہلے کہاں چھپی رہتی ہے۔
٭٭٭٭٭
فواد نے کہا گواہ بن جاتاتوجیل میںنہ ہوتا۔ مجاہد کامران
مجاہد کامران صاحب نے نیب کی حراست میں ایام قید کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ کمزور دل تو دل تھام کر رہ گئے ہیں۔ اب قید خانہ جیل کا ہو یا حوالات کا یا نیب کا وہاں سکون کا تصور ہی محال ہوتا ہے۔ صدیوںسے قائم زنداں اس بات کی گواہی دیتے ہیںکہ جن لوگوںکو زنداں میں ڈالا گیا خواہ وہ انار کلی کی طرح بے گناہ محبت کی ملزمہ ہو یا بھگت سنگھ کی طرح آزادی کے لئے لڑنے والے سر پھرے یا حکومت کے نظریاتی مخالف حسن ناصر جیسے طالب علم سب کا سواگت وہاں پھولوں کے ہار سے نہیں ’’آ جامورے بالما‘‘ والے چھتر سے کیا جاتا ہے۔ یہ تو مجاہد کامران صاحب شکر کریں کہ انہیں فی الحال جلدہی اس چھوٹے زنداں سے نجات ملی ہے۔ انہوں نے چند روز میں وہ کچھ مشاہدہ کر لیا ہو گا کہ 70 سالہ زندگی میں شاید کبھی ایسا کچھ دیکھا ہو گا۔
فیض صاحب جن کی یاد میںآج کل انٹرنیشنل فیسٹیول منایا جا رہا ہے ۔ اپنے قید کے ایام کے حوالے سے کیا خوب کہہ گئے ہیں۔ …؎
جو ہم پر گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
سو رات گئی بات گئی۔ اذیت ، بے عزتی، تشدد یہ سب تو قید خانہ کا زیور ہیں جو ہر قیدی کو پہنایا جاتا ہے تاکہ اس کی روح کو کچلا جاسکے۔اب اگر فواد صاحب بھی اپنے انکار پر قائم ہیں مجاہد صاحب اور دیگر ساتھیوں کی طرح تو کہیں اب یہ انکار نیب کی طرف سے کسی نئی کارروائی کا باعث نہ بنے اور پھر قید خانے کی دیواروں میں شور سلاسل برپا ہو…
٭٭٭٭٭