2005کی مالیاتی سونامی نے ایک بار پھردنیاکے سامنے مکروہ ترغیبات کے حامل بینکاری اور مالیاتی نظام کاپردہ ساری دنیاکے سامنے چاک کردیا۔ لیکن اس نظام کے پشتیبان اثر و رسوخ کے حامل اور طاقت کے مراکزپر قابض تھے اور بزعم خویش اتنے بڑے ہیںکہا نہیںگرنے نہیںدیا جا سکتا ۔ لہذا ان کوکھڑا رکھنے کیلئے ریاست نے اپنے خزانوںکے منہ کھول دئیے۔ دوسری جانب اس میںگرنے والے وہ کمزور اور بے اثر افراد جن کی زندگی بھرکی کمائی خاک میں مل گئی، جو اپنے گھروںسے بے دخل ہوکرکھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے، ریاست انکی کفالت کو نہیںآئی۔ گھروںسے بے دخل ہونے والوںکو اگرکسی بھی درجے میںدیوالیہ ہونے سے بچایاجاتا، اس خیال سے کہ ان کے گھروںکی مالیت اس سونامی کے بعد اپنی حقیقی مالیت کی طرف واپس آجائے گی، تو یہ تباہی سے بچ سکتے تھے جیسا کہ بڑوںکو بچانے کیلئے کیا۔ لیکن اوباما نے بھی اس طرح کی کسی تجویزکودرخور اعتناء نہیںسمجھا۔ جب یہ سونامی گزرگئی تو اس کے بعد کوئی احتسابی عمل شروع نہیںہوا، کچھ افراد کوفوجداری مقدمات کا سامنا کرناپڑا لیکن وہ بہت معمولی سزاؤںکے بعد چھوٹ گئے۔ زیادہ وقت اس بات پر صرف ہوا کہ آئندہ اس کے تدارک کیلئے کیا اقدامات اٹھائے جائیں، ان اقدامات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم قارئین کو ایک اور نام نہادکاروبار سمجھائیں، جو سودی کاروبار سے آگے بڑھ کرصاف اور صریحاً قمار یا جوا ہے اور جو حقیقتاً اس سونامی کا اصل باعث بنا تھا۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا معاہدہ ہے جو derivative (ڈیریویٹو، جس کا ترجمہ ہم "متبدّل" کر رہے ہیں)کہلاتا ہے، جس کے مطابق کسی بھی مستقبل میں پیش آنے والے واقعہ کے دفع کیلئے ایک قیمت ادا کرکے خریدار اپنا تحفظ کر سکتا ہے۔ مثلاً رہن بردار قرض خواہ، جس کو مقروض کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہو وہ ایک متبدّل خریدے گا کہ اگر مقروض نے قرض ادا نہیںکیا تو متبدّل فراہم کرنے والا ادا کردیگا۔ یقیناً یہ معاہدہ ایک طرح کا بیمہ یا انشورنس ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ کاروبار ان تمام قوانین اور نگرانیوں سے مبرّا تھا جو انشورنس کے کاروبار پرلاگو ہوتے ہیں۔ اس کو فروخت کرنے والا انشورنس کے معروف کاروبارکیلئے لائسنس کا نہ حامل تھا اور نہ اس نے اس کیلئے ضروری سرمایہ فراہمی کی پابندی تھی۔ متبدّل ضروری نہیںکہ صرف مالی امور تک محدود رہے۔ یہ اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، شرح سود میںتبدیلی، متعین شرح کوغیرمتعین سے تبادلہ کرنا وغیرہ سب میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ بس ایک قیمت کی ادائیگی سے، ایک خاص مدت کیلئے، ایک ناپسندیدہ نتیجے سے بچنے کیلئے متبدّل خریدکرتحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ (اس میں اصلاحات کاذکر ہم آگے کرینگے۔)
گذشتہ سال500 ٹریلین ڈالر سے زائد "متصّور مالیت"(notional value)کے 25 ارب متبدّل فروخت ہوئے ہیں۔ یہ مالیت ان معاہدوںکی ہے جن کیلئے متبدّلات خریدے گئے ہیں مثلاً شرح تبادلہ یا کریڈت ڈیفالٹ وغیرہ۔ یہ واضح رہے کہ یہاں ایک معاہدہ کئی مرتبہ گنا جاتا ہے کیونکہ متبدّل فروخت کرنے والا خود اپنے تحفظ کیلئے بھی کسی دوسرے سے متبدّل خریدتا ہے، لہذا یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہو جاتا ہے۔ متبدّلات کی خرید و فروخت دو طرح سے ہوتی ہے: باہمی طور پر دو افراد یاکمپنیوںکے درمیان یا پھر کسی ایک سچ نج میں۔ 95 فیصد یہ باہمی طور پر ہوتی ہے۔ ان کی بہت بڑی اکثریت شرح سود اور شرح تبادلہ میں رد و بدل سے بچاؤ کیلئے تھی۔ دو قسم کے متبدّل سب سے زیادہ فروخت ہوئے: ایک کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ (تبادلہ) اور دوسرا رہن بردار قرض ادائیگیاں (collatrized debt obgligations (CDO) آخرالذکر اصل میں سونامی کا باعث بنا۔رہن بردار قرضوں کا زور یوں اور بڑھ گیا کہ مارکیٹ میں اس کا تبدّل بکنے لگا۔ اور امریکہ کا ایک معتبر نام امریکہ انٹرنیشنل گروپ (AIG) اس کام میں لیڈر تھا۔ لیکن جب شرح سود میں اضافہ کی وجہ ڈیفالٹ کا آغاز ہوا تو CDO نے ابتداء میں ادائیگیاں کرنا شروع کردیں لیکن جلد اسے یہ احساس ہوگیا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں ہے۔ قریب تھا کہ سارا نظام دھڑام سے گر جاتا۔ اس وقت کے امریکی وزیر خزانہ ہینری پالسن، گولڈ مین سیکس (Goldman Sachs) جو سب سے بڑا بینک تھا اور اس کاروبار میں بھی چار بڑے اداروں میں شامل تھا، کے سابق سربراہ تھے ان کی سربراہی میں ان اداروں کو بچانے کیلئے ایک اجلاس اکتوبر 2008ء میں منعقد ہوا جس میں مرکزی بینک اور مرکزی انشورنس کے سربراہان بھی شامل تھے اور جہاں یہ فیصلہ ہوا کہ حکومت ان اداروں کو سینکڑوں ارب ڈالر کے قرضے براہ راست اور مرکزی بینک کے ذریعے فراہم کریگی تاکہ یہ اس ڈیفالٹ سے بچ جائیں۔ مرکزی بینک نے تقریباً صفر شرح سود پر اتنی بڑی مقدار میں قرضے جاری کیے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس کی بیلنس شیٹ دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ متبدّل کا کاروبار بلا روک ٹوک اور بغیر کسی قانونی عمل کے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ سن2000 بل کلنٹن کی صدارت کا آخری سال تھا اور اس سال دسمبر تک کا ان کا بجٹ کانگریس سے پاس نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے حصول میں جو چیز مانع تھی وہ ریپبلکن پارٹی کے سینٹرز کا یہ اصرار تھا کہ بجٹ قانون کے اندر ایک اور قانون کی منظوری دی جائے جس کی صدر کلنٹن مخالفت کر رہے تھے۔ یہ قانون متبدّل کے کاروبار کو ایک مستقبل (فیوچرز) کے سودوں کی مارکیٹ، جو ایک منظم مارکیٹ ہے اور تبادلہِ اشیا ایکٹ 1936 کے تحت کام کرتی ہے، اس سے جدا ایک کاروبار تسلیم کرتا ہے۔ یہ کاروبار باہمی سودوں کی بنیاد پر ماہر سرمایہ کاروں کے درمیان ہوگا اور اس پر کسی قسم کی کوئی نگرانی کا عمل نہیں ہوگا خصوصاً 1936 کا ایکٹ اس پر لاگو نہیں ہوگا۔ بالآخر مجبوری میں بل کلنٹن نے بجٹ منظوری کی خاطر اس قانون کو منظور کرلیا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نگران ادارے جو بینکوں، غیر بینک مالی اداروں، انشورنس وغیرہ کی نگرانی کرتے ہیں اس کاروبار کے معاملات کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ مزید براں وال اسٹریٹ اور کوئی دوسرا اسٹاک ایکسچینج بھی یہ کام دیکھنے کا مجاز نہیں تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ متبدّل فروخت کرنیوالوں کو کسی قسم کے ذاتی سرمائے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئے کاروبار کی تنظیم نے ایک اور مکروہ ترغیب فراہم کردی جو اس کی تباہی کا باعث بنی۔ متبدّل اتنی بڑے تعداد میں فروخت کئے گئے جتنی بڑی تعداد میں رہن بردار قرضے جاری کیے جا رہے تھے۔ جب بڑے پیمانے پر رہن بردار قرضوں کا ڈیفالٹ شروع ہوا تو متبدّل بیچنے والوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ وہ اپنے سارے وعدے پورے کرسکتے۔ یہ نوبت جب AIG اور گولڈمین سیکس تک پہنچی تو "آپ کی زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی" کے مصداق بڑی سرکار حرکت میں آ گئی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024