پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں زیر سماعت العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو 17 نومبر 2018 تک ریفرنس نمٹانے کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی لیکن 17 نومبر 2018ء تک بھی یہ ریفرنس نمٹائے نہیں جا سکے۔ احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ٹرائل کی مدت میں 8ویں بار توسیع کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں ٹرائل مکمل ہونے کے قریب ہے، العزیزیہ میں میاں نواز شریف کا بیان اور فلیگ شپ میں آخری گواہ پر جرح جاری ہے لہذا ٹرائل مکمل کرنے کیلئے مزید وقت دیا جائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے میاں نواز شریف اور انکے بچوں کیخلاف ٹرائل مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن میں اب تک 7 بار توسیع ہوچکی ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس فیصلے میں سپریم کورٹ نے ابتدائی طور پر ٹرائل مکمل کرنے کیلئے 6 ماہ کا وقت دیا تھا۔ ٹرائل مکمل نہ ہونے پر پہلے 2 ماہ، پھر دو بار ایک ایک ماہ اور دو مرتبہ چھ چھ ہفتوں کا وقت دیا گیا، آخری بار سپریم کورٹ نے ٹرائل مکمل کرنے کیلئے 17 نومبر کا وقت دیا تھا۔ اب تک احتساب عدالت نے صرف ایک مقدمے ایون فیلڈ کا فیصلہ سنایا ہے اس بات کا قوی امکان ہے کہ سپریم کورٹ سے احتساب عدالت کو مزید مہلت مل جائیگی غالباً یہ آخری مہلت ہو گی احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کا بیان دن میں دو بار ریکارڈ کیا ہے ۔ میاں نوازشریف پچھلے سوا سال سے احتساب عدالت میں 100 سے زائد پیشیاں بھگت چکے ہیں۔ انھوں نے احتساب عدالت میں مسلسل پیش ہونے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے میاں نواز شریف کی عدالت میں پیشی کے موقع پر جہاں سینیٹر چوہدری تنویر خان ، انجم عقیل میاں نواز شریف سے اظہار یک جہتی کرتے ہیں وہاں ڈاکٹر طارق فضل ، ملک ابرار، ملک شکیل اعوان ،چوہدری جمیل ، ربنواز عباسی اور قیصر خان یوسف زئی بھی احتساب عدالت میں نظر آتے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے سینئر نائب صدر ناصر بٹ اور جنرل سیکریٹری راجہ جاوید اقبال نے بھی اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں وہ بھی کم و بیش ہر پیشی پر میاں نواز شریف سے اظہار یک جہتی کیلئے احتساب عدالت موجود ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاستدان کو احتساب عدالت سے ریکارڈ مدت میں ’’انصاف‘‘ نہیں مل سکا جتنا کہ میاں نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات زیر سماعت ہیں لیکن سالہاسال ہوگئے ان پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا لیکن میاں نواز شریف کے خلاف ریکارڈ مدت میں مقدمات نمٹانے کی ایک مثال قائم کی جا رہی ہے میاں نواز شریف سخت جان سیاستدان ثابت ہوئے ہیں ۔ وہ پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جو صرف وزیر اعظم کے اختیارات سے آگاہ ہی نہیں بلکہ انہیں استعمال کرنا جانتے بھی ہیں اور اس کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں شاید اختیارات کی اس لڑائی کے ہاتھوں ہی انہیں کبھی جیل یاترا کرنا پڑی ہے یا جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا میاں نواز شریف کے ساتھ انکی ماں کی دعائیں ہیں ۔سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف اور مریم نواز کی سزامعطلی کے ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف نیب کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرلی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ’’ سپریم کورٹ پر اعتماد کرنا ہوگا،اوربد اعتمادی کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا،اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں تضاد ہے تو لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلا معاونت کریں۔ انصاف کے تقاضوں کے مطابق جو بہترین فیصلہ ہوا وہ کریں گے‘‘۔ عدالت نے نیب اور فریقین سے قانونی نکات پر تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کردی ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل کی سماعت کے دوران انکی ضمانت برقرار رکھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ دہشتگردی کے مقدمات میں بھی سزائیں معطل کی گئیں لیکن ان مقدمات میں بھی عدالت عظمی نے سزائیں منسوخ نہیں کی تھیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ میرے ذہن میں تین بنیادی سوال ہیں۔ دہشتگردی کا مقدمہ فوجداری کیس ہوتا ہے۔موجودہ کیس نیب قانون کا تھا۔اصل سوال ضمانت نہیں سزا معطلی کا ہے۔عدالت نے دیکھنا ہے کن حالات میں سزا معطل ہو سکتی ہے۔کیا سزا معطلی میں شواہد کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جائزہ لیں گے کیا ہائی کورٹ نے شواہد کا تفصیلی جائزہ لیا ہیَ؟اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں تضاد ہے تو لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلا معاونت کریں۔میاں نواز شریف نے کہاہے کہ العزیزیہ کی ملکیت کا دعوی کبھی نہیں کیا،ہمیشہ کہا ہے کہ العزیزیہ سٹیل ملز کی ملکیت سے کچھ لینا دینا نہیں،بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقم کا 77فیصد اپنی صاحبزادی کو گفٹ کیا جس کا میں مجاز تھاحسن نوازاور حسین نواز کے انٹرویو زبطور شواہد پیش نہیں کئے جا سکتے، تفتیش کے دوران کسی بھی شخص کا دیا گیا بیان قابل قبول شہادت نہیں، نواز شریف نے کہاحمد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو سوالنامہ فراہم کرنے کا کہا تھا، حمد بن جاسم کی جانب سے یہ ایک معقول درخواست تھی کہ سوالنامہ دیا جائے، جے آئی ٹی نے غیر ضروری طور پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے سخت شرائط رکھیں، جے آئی ٹی کے طریقہ کار سے لگا کہ وہ قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنا نہیں چاہتی، قطری کے خطوط سے کہیں نہیں لگتا کے وہ جے آئی ٹی سے تعاون کیلئے تیار نہیں تھے، قطری نے جے آئی ٹی کو لکھے خطوط میں کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے دونوں خطوط کی تصدیق کرتے ہیں،نواز شریف نے کہاکہ العزیزیہ سٹیل ملز کی فروخت یا اس سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا کبھی حصہ نہیں رہا میاں نواز شریف نے قطری خطوط سمیت اپنے بیٹوں کی طرف سے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں پیش کی گئی دستاویزات سے لاتعلقی کا اظہار کردیاہے میاںنواز شریف نے کہا کہ مجھے، اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دسمبر 2000ء میں جلا وطن کرکے بیرون ملک رہنے پر مجبور کیا گیا،1999میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ہماری تمام جائیداد ضبط کرلی گئی،1972میں رات کے اندھیرے میں اتفاق فائونڈری کو قومیا لیا گیا ، اس وقت تو میں سیاست میں بھی نہیں تھا، اتفاق فاونڈری کے بدلے کوئی کمپنسیشن بھی نہیں دی گئی،کسی نے پوچھا تک نہیں کہ ہمارے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے یا نہیں ،نوازشریف نے جج ارشد ملک سے کہا کہ1999ء کے مارشل لاء کی الگ کہانی ہے ،موقع ملا تو بتائیں گے ،مارشل لاء کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا تمام ریکارڈ ایجنسیوں نے غیرقانونی تحویل میں لے لیا،ریکارڈ اٹھائے جانے کیخلاف متعلقہ تھانے میں شکایت درج کرائی گئی تاہم کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ،جلاوطنی کے دنوں میں نیب نے غیر قانونی طریقے سے ہماری خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لے لیا، یہ بہت درد ناک کہانی ہے،ماڈل ٹاون رہائش گاہ کو اولڈ ہاوس میں تبدیل کردیا گیا،انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے والد نے پیسوں کا انتظام کیا اور جلا وطن ہونیوالے خاندان کے افراد کی ضروریات کو پورا کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے نیب کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا، نوازشریف نے سوالات کے جواب میں کہا کہ ریکارڈ پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ مختصر نام ہے، اس کا پورا نام ہل انڈسٹری فارمیٹل اسٹیبلشمنٹ ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کوئی قابل قبول شہادت نہیں، اسکے دس والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، میرے ٹیکس ریکارڈ کے علاوہ جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کی گئی کسی دستاویز کامیں گواہ نہیں جو میں نے خود جے آئی ٹی کو فراہم کیا تھا۔میرے خلاف شواہد میں ایم ایل ایز پیش کئے گئے ، سعودی عرب سے ایم ایل اے کا کوئی جواب ہی نہیں آیا تھا، یو اے ای سے آنے والا ایم ایل اے کا جواب درست مواد پر مبنی نہیں۔ اب تک میاں نواز شریف 342کے تحت دئیے گئے بیان میں 130 سوالات کے جوابات دے چکے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024