شیر شاہ سوری کی سرائے سے عمران خان کے مسافر خانوں تک
میرے بچپن کا قصہ ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد اچانک کوئی اجنبی شخص کھڑا ہو کر اعلان کرتا کہ وہ رات بھر مسجد میںمسافر کی حیثیت سے قیام کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کسی کے گھر سے اس کے لئے چارپائی اور بستر آ جاتا اور کسی گھر سے رات کا کھانا۔ صبح کی نماز کے بعد مسافر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ گروہ کی شکل میں شام کو قصور شہر میںکسی مذہبی یا سیاسی لیڈر کا جلسہ سننے جاتے۔ اور باقی رات وہیں کسی مسجد کی صفوں پر سو رہتے۔یہ ایک پر سکون دور تھا،یہ خطرہ نہیں تھا کہ مسافر کوئی و اردات کر کے رفو چکر ہو جائے گا۔
اب ملک کی نئی حکومت نے بار بار ریاست مدینہ کی مثال دی ہے تو وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنانےو الے بھی تاک میں رہتے ہیں۔ ایک صاحب نے کسی بچے کی تصویر بنائی جو رات کو فٹ پاتھ پر کھلے آسمان تلے سویاا ور اس کی سرخی جما دی کہ یہ ہے نئی ریاست مدینہ۔ وزیر اعظم عمران خاںنے اس تنقید کا برانہیں منایاا ور مسافروں،مزدوروں وغیرہ کے قیام کے لئے پناہ گاہوں کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ ہماری سڑکوں یا پارکوں میں تو نشئی بھی دھت پڑے رہتے ہیں۔ یہ سب لوگ ریاست کی کفالت کے مستحق ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی لوگ ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور پارکوںمیں رات گزارتے ہیں۔ ان کے لئے حکومت شیلٹر ہوم بناتی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ بے گھروں اور بے آسروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے چنانچہ یہ مسئلہ ہر ملک کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے ریلے بھی سر درد بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں چاروں طر ف سے لوگ ہجرت کر کے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، صدر ٹرمپ نے ان کی آمد کو روکنے کے لئے سرحدی دیوار تعمیر کرنے کا بیڑہ اٹھایا مگر اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے مہاجروں کو آنے سے روکنے پر ممانعت ہے۔پاکستان پرتیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ ہے ۔ اب نصف صدی ہونے کو آئی ، یہ لوگ یا تو خیموںمیں پڑے ہیں یا پاکستان کے مختلف شہروںمیں پھیل گئے ہیں اور انہوںنے اپنی بستیاں بنا لی ہیں۔ بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں کو دھکیلا جا رہا ہے اور شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی کو مہاجرین کے قافلے پریشان کر رہے ہیں۔
مدینہ کی ریاست میں مرکزی مسجدہی مسافر خانہ تھی،اسے آپ اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس بھی کہہ سکتے ہیں۔اس میں بیرونی ملکوں سے آنے والے وفود بھی قیام کرتے تھے اور مختلف شہروں سے آنے والے طالب علم بھی زیر تعلیم تھے جنہیں اصحاب صفہ کہاجاتا تھا۔ مدینہ کے لوگ ان کے کفیل تھے۔
بر صغیر میں شیر شاہ سوری نے پورے ملک میں ہرچالیس میل کے فاصلے پر سرائے تعمیر کی۔ جہاں مسافر بھی قیام کرتے اور حکومت کی طرف سے ڈاک کی ترسیل بھی انہی مقامات پر موجود تازہ دم گھڑ سوار وں کی ذمے داری تھی۔ہر سرائے کے ساتھ صاف پانی کا ایک کنواں، سایہ دار درخت اور مسافروں کے قیام کا بندو بست تھا، شیر شاہ سوری کا دور حکومت تو بہت مختصر تھا مگر اس نے مواصلات اور فلاحی منصوبوںکی تکمیل میں خصوصی دلچسپی دکھائی اور تاریخ میں اپنا نام سنہر ی حروف میں لکھوایا۔
تاریخ میں ملکہ زبیدہ کا ذکر بھی ملتا ہے جس نے حجاج کرام کی ضرورت کے پیش نظر ایک طویل نہر کھدوائی۔ اسے نہر زبیدہ کہا گیا ۔ اس کے آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سعودی حکمرانوںکوا للہ نے بے حد نوازا ہے اوروہ حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لئے ہر سال نئی سہولتوں کا جال بچھا رہے ہیں۔
بادشاہ اور عام حکمران تو جو چاہے کر سکتے ہیں مگر میں میجر رشید کو نہیں بھول سکتا، وہ طبیعت کے سخت مشہور تھے ،لیکن اللہ نے مستحقین کے لئے ان کا دل بہت نرم کر دیا تھا۔ وہ چوبرجی پر دیکھتے جہاں فٹ پاتھ پر سینکڑوں مزدور رات گزارنے کے لےے گھاس پر لیٹتے ۔ ان میں سے اکثر بھوکے سوتے اور صبح بھی ناشتے کے بغیر کام کی تلاش میں نکل جاتے۔ میجر رشید ہر صبح ان کے پاس پہنچتے۔ نان چنے اور حلوے کا ناشتہ کرواتے۔یہ ان کا زندگی بھر کا معمول رہا۔ ان کی وفات کے بعد یہ کارخیر ان کے بھائی بریگیڈیئر نصراللہ انجام دے رہے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ایک مریض کے ساتھ کئی رشتے دار بھی دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں۔ یہ لوگ بھی ہسپتالوں کی راہداریوں یا باہر کھلے پارک میں سونے پر مجبور ہیں۔ ان لوگوں کی خدمت خاطر کے لےے کئی خیراتی ادارے سرگرم عمل ہیں، لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال کے مریضوں کو دودھ کی سپلائی میں ماڈل ٹاﺅن کے سیٹھ عبدالکریم نے نام کمایا اور جنت بھی کمائی۔ ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ان کے بیٹے نوید کریم چودھری باقاعدگی سے چلا رہے ہیں، وہ اپنے ڈیری فارم کا نصف دودھ اس ہسپتال کے مریضوں کی نذر کرتے ہیں۔ رمضان کریم میں ہر روز ہسپتال کے مریضوں کے لواحقین کے لئے سحری کا بندوبست کرتے ہیں۔ یہ لوگ داد کے مستحق ہیں۔ ایسے انفرادای خیراتی افرادا ور اداروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ بحریہ ٹاﺅن کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
مگر اصل کام تو ریاست کے کرنے کا ہے جو اپنے شہریوں کے لئے ماں باپ کا درجہ رکھتی ہے۔ عمران خاں کے دل میں بے آسرا لوگوں کے لئے تڑپ موجود ہے اور انہوںنے حکومت سنبھالتے ہی فلاحی کاموں کاا ٓغاز کر دیا ہے۔ فی الوقت انہوں نے پنجاب ا ور خیبر پی کے میں ایسے منصوبوں کا ا ٓغاز کیا ہے ۔لاہور بڑا شہر ہے جہاں عام طور پر لاری اڈہ۔ ریلوے اسٹیشن، چوبرجی،اچھرہ۔ داتا دربار وغیرہ پر لوگوں کا ہجوم دیکھا جاسکتا ہے۔ شہروں میں بڑی تعداد نشئی لوگوں کی بھی ہے جن کو اصلاح خانوں میںمنتقل کیا جانا چاہئے۔ بہرحال پہلے مرحلے پر مسافروں اور مزدوروں کے قیام کے لئے درجنوں پناہ گاہوں کی تعمیر کا اعلان کیا گیا ہے۔ لاہور میں ان کی تعمیر کی ذمے داری ایل ڈی اے پر ڈالی گئی ہے۔ میری تجویز ہو گی کہ ہم ان عمارتوں کو یا تو سرائے کا نام دیں یا مسافر خانہ۔ شیلٹر ہوم کا تصور کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ہماری افسر شاہی کی مہربانی ہو گی کہ وہ ان عمارتوں کی تعمیر میں کمیشن خوری سے باز رہیں اور ان میں جو سہولتیں فراہم کی جائیں ،وہ معیاری ہونی چاہئیں۔ کھانے پینے کی اشیا بھی ملاوٹ سے پاک ہوں ۔ یہاں مسافروں کو آپ گوشت نہ دیں ۔ انڈے نہ پیش کریں۔ صرف سبزی پکائیں اور صاف آٹا استعمال کریں۔ پینے کو پانی بھی صاف ہونا چاہئے۔ تاکہ یہ لوگ معدے، آنتوں، جگر اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا نہ ہوں۔
وزیراعظم عمران خان اپنے وعدوں کی تکمیل میں تیزی سے سرگرم ہیں۔ انہیں پہلے سو دنوں کی کارکردگی بھی دکھانی ہے مگر حکومت کو کسی نفسیاتی بوجھ کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور سنجیدگی اور سکون کے ساتھ اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہئے۔ میری ایک اورتجویز بھی حاضر ہے کہ اس ملک میں مسجدوں اور اسکولوں کی شکل میں کروڑوں کی تعداد میں عمارتیں رات بھر خالی رہتی ہیں۔ اگرچہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی سنگینی کی صور تحال درپیش ہے لیکن ایک منظم طریقے سے ہر محلے کے مزدور اور مسافروں کی رجسٹریشن کر لی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں کروڑوں اربوں کے خرچ سے جگہ جگہ نئی عمارتیں کھڑی کرنی نہیں پڑیں ، ہم اگر تہیہ کر لیں تو اسکولوں اور مسجدوں کو رات کے قیام کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ میری تجویز شیخ چلی والی نہیں ۔ ہماری پوری تاریخ میں مسجدیں چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھیں اور لوگ دن یا رات کویہاں بے خوف ہو کر قیام کر سکتے تھے اور انہیں محلے دار کھانا بھی پہنچاتے رہے ہیں۔ بس اس روایت کو زندہ اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم عمران خان یہ کام باآسانی کر سکتے ہیں۔