ذیابیطس موجودہ دور کا خطرناک اور تکلیف دہ مرض
فرزانہ چودھریfarzanach05@yahoo.com
مولانا ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی حافظ ِ قرآن‘ فاضل درسِ نظامی‘ فاضل قرأتِ عشرہ بھی ہیں‘ انہوں نے ایم اے عربی جامعہ پنجاب سے کیا۔ ایم فل علوم اسلامیہ اور پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے کیا۔ علم تجوید و قرأت اور علم رسم القرآن کے موضوع پر متعدد قومی وبین الاقوامی کانفرنسز میں علمی وتحقیقی مقالات پڑھ چکے ہیں۔ قرآنیات کے شعبہ میں نمایاں اور قابل قدر خدمات کے اعتراف میں سعودیہ عرب کے شاہ عبد اللہ مرحوم کی طرف سے سرکاری دعوت پر عمرہ کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ جاپان‘ سعودیہ عرب‘ بحرین‘ فلپائن میںمنعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسز میںبھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی‘ عالمی شہرت یافتہ‘ صدارتی ایوارڈ یافتہ قاری شیخ القرأ مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی کے فرزندہیں۔ مولاناڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی برصغیر پاک و ہند کے معروف عالم دین حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ برصغیر کی ان نمایاں اور بااثر ترین شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی واضح حمایت کی تھی۔ شیخ القرأ مولانا ڈاکٹر قاری اَحمد میاں تھانوی مدظلہم کا شمار پاکستان میں علم تجوید و قرأت کے شعبہ میں نمایاں ترین لوگوں میں سے ہوتا ہے۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے نمایاں فضلاء میں سے ہیں۔ ڈاکٹر قاری احمدمیاں تھانوی نے حفظِ قرآن مجید‘ تجوید و قرأت عشرہ کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ جامعہ اشرفیہ لاہور سے مکمل درسِ نظامی‘ مدینہ یونیورسٹی مدینہ منورہ کے کلیۃ القرآن سے قرأت عشرہ‘ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے علوم اسلامیہ اور قرآنی رسم الخط میں ڈاکٹریٹ کیا۔ قاری صاحب پاکستان میں پہلے آدمی ہیں جنہوں نے قرآنی رسم الخط میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ 1970ء سے تجوید وقراء ات کے شعبہ میں تدریسی‘ تحقیقی اوراشاعتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ قاری احمد میاں تھانوی 1965ء سے ریڈیو پاکستان پر تلاوت قرآن مجید کی سعادت حاصل ہے۔ 1981ء میں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی طرف سے سکالر شپ پر مدینہ یونیورسٹی قرأت کی اعلیٰ تعلیم کے منتخب کیے گئے۔ قیام مدینہ کے دوران سعودیہ عرب کے ریڈیو اذاعۃ القرآن سے قرأت سبعہ میں تلاوت کی ریکارڈ نگ کی سعادت حاصل کی‘ یہ تلاوت اب بھی سعودی ریڈیو اذاعۃ القرآن سے نشر ہوتی ہے۔مولانا ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی سے عید میلاد کے موقع پر کی گئی خصوصی گفتگونذر قارئین ہے۔
٭ :نبی کریمؐ کی سیرت اور تعلیمات میں سب سے اہم اور نمایاں ورثہ کیا ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی: نبی کریمؐ کی سیرت اور تعلیمات میں سب سے اہم اور نمایاں ترین چیز قرآن مجید اور اس کی تلاوت ہے۔ خواہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر ہو۔
٭:قرآن مجید کی تلاوت میں تجوید و قرأت سے کیا مراد ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی: تجوید سے مراد الفاظ کی خوبصورت ادائیگی ہے اور قرأت سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ مختلف قرأ تیں ہیں۔
٭:کیا علم تجوید و قرأت نبی کریمؐ سے ثابت ہیں؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی : علم تجوید و قرأت نبی کریمؐ سے نہ صرف ثابت ہے بلکہ حُسنِ قرأت سیرۃ النبیؐ کا اہم ترین حصہ اور جمالیاتی پہلو ہے۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ انتہائی خوبصورت آواز سے قرآن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے بھی فرمایا کہ تم قرآن مجید کو اپنی آوازوں سے زینت دو اور ایک مرتبہ فرمایا کہ تم تلاوتِ قرآن سے اپنی آوازوں کو زینت بخشو۔ اور فرمایا کہ جو شخص قرآن مجید کو تغنی یعنی آواز کو سنوار کر اور خوبصورت بنا کر ترتیل سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
٭:کیا نبی کریمؐ کو خوش الحانی پسند تھی؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی : جی ہاں بالکل پسند تھی بلکہ آپؐ کے شمائل میں روایت ہے کہ آپؐ انتہائی خوش شکل اور انتہائی خوش آواز تھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابو موسٰی اشعریؓ کی تلاوت سنی تو ان کی آواز کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے تمہیں آل داؤد کی بانسریوں میں سے کوئی بانسری عطا کی گئی ہے۔ اسی طرح ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ نے حضرت امیر معاویہؓ سے کچھ قرآنی آیات لکھوائیں تو آپؐ نے قرآنی کتابت اور خطاطی میں بھی حُسن و جمال پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی۔
٭:قرآن کریم کی تلاوت کے صوتی حسن وجمال کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی : جب نبی کریمؐ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو سننے والوں کو قرآنی پیغام کی طرف متوجہ کرنے میں آپؐ کی معجزانہ صوتی تاثیر اولین کردار ادا کرتی تھی۔ اس کے بعد جب وہ لوگ نبی کریمؐ کی آواز کو سن کر متوجہ ہو جاتے تو قرآن حکیم کے معجزانہ معانی اور مطالب ان کو متاثر کرتے تھے چنانچہ یہی بات بہت سے لوگوں کے اسلام لانے اور ایمان قبول کرنے کا ذریعہ بنی ہے۔
٭:کیا پاکستانی معاشرے میںعوامی سطح پر سیرت النبیؐ کے اِس جمالیاتی پہلو یعنی تجوید و قرأت کا ذوق یا احساس موجود ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی : جی ہاں‘ الحمدللہ پاکستان میں یہ ذوق بہت امید افزاحد تک پایا جاتاہے۔ جس کی واضح دلیل پاکستان میں آئمہ حرمین بالخصوص امام عبدالرحمن السدیس کی شخصیت سے ایک بہت بڑی تعداد کا واقف ہونا ہے‘ اسی طرح شیخ عبدالباسط کا نام بہت سے پاکستانی آج بھی جانتے ہیں۔ نیز پاکستان دنیا بھر کے تمام ممالک میںقرآن مجید کے حفاظ و قرأ کی تعداد اور معیار کے اعتبار سے صف ِ اول میں شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کے سروے کے مطابق ہر سال حافظ بننے والوں کی تعداد کے اعتبارسے پاکستان سعودیہ عرب اور مصر سے بھی آگے ہے اور پہلے نمبر پر ہے۔
٭:جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں لیکن درست نہیں پڑھ سکتے اور غلط پڑھنے سے ڈرتے ہیں‘ ان کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی : قرآن مجید کی تلاوت کے اعتبار سے انسانوں کی چار قسمیں بنتی ہیں۔ پہلی قسم: تجوید کے ماہر قاری‘ ان کا مقام حدیث نبویؐ کے مطابق فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ دوسری قسم وہ ہے جو ابھی سیکھنے میں لگے ہوئے ہیں‘ ان سے اگر دوران تلاوت کوئی نادانستہ غلطی بھی ہو جائے تونہ صرف وہ غلطی معاف ہے بلکہ ان کو دو اجر ملیں گے۔ تیسری قسم وہ لوگ ہیں جو سیکھ سکتے ہیں لیکن غفلت کا شکار ہیں اور وہ قرآن مجیدکی درست تلاوت سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے‘ یہ لوگ غافل ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔ چوتھی قسم پر وہ لوگ ہیں جو کسی معذوری کی وجہ سے درست تلاوت سیکھنے کے قابل ہی نہیں ہیں‘ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ وہ جیسے بھی پڑھتے رہیں ان کی تلاوت بھی درست ہے اور ان کی نماز بھی درست ہے۔ قرآن مجید سیکھنے کے دوران کوئی غلطی ہوجائے تو وہ معاف ہے۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی ناظرہ قرآن مجید پڑھتاہو اور اس کے سامنے قرآنی نسخہ میں کوئی کتابت کی غلطی یا طباعتی غلطی رہ گئی اور یہ شخص اس کی وجہ سے غلط ہی پڑھتا رہا تو بھی اس کو گناہ نہیں ہوگا کیونکہ اس غلطی کا ذمہ دار یہ شخص نہیں بلکہ اس غلطی کا ذمہ دارکوئی اور شخص ہے یعنی‘ کاتب‘ ناشر یا پروف ریڈر تو اس غلطی کا بوجھ ان پر ہو گا‘ اگر ان کی غفلت سے غلطی رہ گئی ہے اور اگر نادانستہ رہ گئی ہے تو گناہ نہیں۔ لیکن جب بھی اس کا پتہ چل جائے اس کو درست کر لینا بہرحال ضروری ہے۔
٭:کیا مطبوعہ قرآن مجید میں غلطی ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی :قرآن مجید لکھا ہوا یا مطبوعہ شکل میں تو نازل نہیں ہوا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے بعد ہر زمانہ میںعام انسانوں نے لکھا اور چھاپا ہے۔ جیسے کسی قاری سے پڑھنے میں بھول چوک ہوسکتی ہے اسی طرح کاتب سے لکھنے میں بھی بھول چوک ہوسکتی ہے۔ مشین سے طباعت میں خرابی بھی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا غلطی کا امکان بہرحال موجود ہوتا ہے۔
٭:ایک عام آدمی کو کیسے پتہ چلے گا کہ میرے پاس جو نسخہ قرآن مجید ہے اس میں کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی :عوام الناس کو صرف معیاری کاغذ اور معیاری کتابت و طباعت والا نسخہ ہی خریدنا چاہیے۔
٭: کیا پاکستان میں قرآن مجید کی غیر معیاری طباعت بھی ہوتی ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی: جی بالکل‘ غیر معیاری طباعت بھی ہورہی ہے۔ کیونکہ مقابلے کی فضا میں معیار قائم رکھتے ہوئے کسی چیز کی تجارت کرنا آسان کام نہیں ہے۔ قیمت کم کرنے کی کوشش میں معیار قائم نہیں رہ پاتا۔
٭ :ایک عام آدمی معیاری نسخہ کو کیسے پرکھ سکتا ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی :یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس پر الحمد للہ پنجاب قرآن بورڈ نے بہت سا کام کیا بھی ہے اور کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے‘ لیکن بہر حال اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
٭:کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں عوام الناس کو نہایت اعلیٰ معیار کی کتابت و طباعت والا نسخہ قرآن مجید کم قیمت پر دستیاب ہو جائے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی : جی بالکل‘ بلکہ مفت بھی مل سکتا ہے۔ کیونکہ سعودیہ عرب سمیت کئی عرب ممالک لاکھوں کی تعداد میں نہایت معیاری انداز میں قرآن مجید طبع کرتے ہیں اور مفت تقسیم کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ طریقہ تو سب سے آسان ہے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پنجاب قرآن بورڈ لاہور کو اس کے اصل اغراض ومقاصد کے لیے مؤثر بنایا جائے اور حکومت طباعت ِ قرآن مجید کے پورے نظام کی ایک جامع منصوبہ بندی کرے اور یہ دونوں کام مشکل نہیںہیں۔ صرف مخلصانہ توجہ کی ضرورت ہے۔
٭:عربی رسم الخط والے قرآن مجید میںہمارے عوام الناس کیسے پڑھ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی : قرآن مجید تو ایک ہی ہے صرف‘ لکھائی میں چند علامات کا فرق ہے‘ ان کو ایک عام آدمی بھی اگر چاہے تو صرف تین دن میں سیکھ سکتا ہے۔ کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ تمام حروف وہی ہیں‘ الفاظ وہی ہیں‘ زبر‘ زیر‘ پیش وہی ہیں‘ صرف چندعلامت کے استعمال کا فرق ہے۔
٭:یہ علامات کا فرق کہا ں سے آیا ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی: عہد نبویؐ اور عہد صحابہؓ میں نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے‘ بعد میں عجمی مسلمانوں کی آسانی کے لیے ایجاد کیے گئے تھے۔ لہٰذا ہر علاقے اور ہر زمانہ میں کچھ علامات زیادہ رواج پا گئیں۔
٭:پاکستان میں طباعت ِ قرآن مجید کی جامع منصوبہ بندی سے آپ کی کیا مراد ہے ؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی :قرآنی خطاطی پنجاب قرآن بورڈ تیارکرے جیسا کہ سعودیہ عرب میں کیا گیا ہے اور وہ خطاطی تمام ناشران کو مناسب فیس کے عوض فراہم کر دی جائے۔
اس سے یکساں معیار بھی قائم ہو جائے گا اور ناشر کے اخراجات بھی کم ہو جائیں گے اور کتابت میں غلطی کا امکان بھی کم سے کم رہ جائے گا اور قرآن پیپر سے ٹیکس ختم کرکے ناشران کو فراہم کرنے کا نظام وضع کیا جائے۔ ٹیکس فری پیپر کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے ہر ناشر کو جتنا قرآن پیپر فراہم کیا جائے اس کے مطابق اس کے تمام مطبوعہ نسخوں پر سیریل نمبر درج کروایا جائے اور بعد از طباعت چیکنگ کو لازم کیا جائے۔
٭:جو لو گ باوجود کوشش کے اپنا تلفظ درست نہ کر پائیں ان کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی: قرآن مجید پڑھنا اور سننا دونو ں کا اجر و ثواب برابر ہے۔ لہٰذا جو لوگ خود خوش الحانی یا درست تلفظ کے ساتھ نہ پڑھ سکیں تو ان کو قرآن مجید کی تلاوت سننے کا معمول بنا لینا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ یعنی تلاوت سننا رحمت کا باعث ہے۔ لہٰذا یہ آسان بھی ہے اور اس میں غلطی کا بھی خطرہ نہیں ہو گا۔
٭موجودہ دور میں نو جوان نسل میںخوش الحانی اور تجوید کے ساتھ تلاوتِ قرآن مجید کا ذوق کیسے پید ا کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر حافظ رشید احمد تھانوی: انسان فطری طور پر حُسنِ سماع کا ذوق رکھتا ہے‘ اچھی آواز میں فطری کشش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی اور ترنم انسانی مزاج اور کیفیات میں کسی حد تک خوشگوار احساس پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اگریہی موسیقی اعلیٰ انسانی اخلاق و اقدار کے منافی جذبات و خیالات پر مشتمل ہو تو گناہ بن جاتی ہے اور اگر یہ خوش الحانی قرآن مجید یا نعتِ نبویؐ کی شکل میں ہو تو اس کے مثبت اثرات بھی بہت گہرے ہوتے ہیں۔ نئی نسل کے نوجوانوں میں تجوید اور خوش الحانی کو فروغ دینے کے لیے قرآنی مسابقات کو منظم انداز میں ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ جہاں حکومت کھیلوں پر کروڑوں روپے کا بجٹ خرچ کرتی ہے وہاں قرآنی مسابقات پر بھی دل کھول کر خرچ کرنا چاہیے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ بہت سے کھیلوں کے لیے مختلف کمپنیاں سپانسر بن جاتی ہیں کیونکہ ان کا بھی مفاد وابستہ ہوتاہے۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی مشروب بنانے والی کمپنی نے کسی قرآنی مسابقہ کو سپانسر کیاہو۔ یا کسی قرآنی مسابقہ میں اول آنے والے کسی بچہ کوپاکستان میں حکومت نے کوئی بڑا انعام دیا ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوصلہ افزائی کا فقدان ہے۔ جبکہ عرب ممالک مثلا سعودیہ عرب‘ دبئی بحرین‘ کویت وغیرہ میں سال میںکئی کئی قرآنی مسابقات ہوتے ہیں اور ان میں لاکھوں روپے انعامات مقرر ہوتے ہیں۔ آج کل بحرین کی وزارت اوقاف ایک آن لائن عالمی مسابقہ کروا رہی ہے جس میں پہلی پوزیشن پرتیس لاکھ روپے انعام مقرر کیا گیا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں نوجوان نسل کو قرآن مجید کی تجوید و خوش الحانی کی طرف راغب کرنے کے لیے جتنا بجٹ کھیلوں کی ترقی پر خرچ کیا جاتا ہے اگر اس کاکچھ فیصد بھی مخلصانہ انداز میں قرآن پڑھنے والے بچوں پرخرچ کر دیا جائے تو صورتِ حال بہت جلد بہتر ہو سکتی ہے۔ اگرچہ صورت حال اب بھی مایوس کن نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں جہاں تعلیمات نبویہؐ اور قرآن وحدیث سے بے توجہی اور ناانصافی برتنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے اسی طرح پاکستان میں سیرت طیبہ کے اس جمالیاتی پہلو یعنی تجوید و قرأت یا قرآنی خوشخطی کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ صرف ان کو منظم کرنے اور باہمی روابط مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔