ہفتہ ‘ 28 ؍ صفرالمظفر 1439ھ‘18 ؍ نومبر2017ء
ججوں کا کہا درست‘ پانامہ فیصلہ برسوں یاد رکھا جائے گا‘ لیکن بری مثال کے طورپر: مریم نواز کا ٹویٹ
مسلم لیگ (ن) کی خاتون رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ اقامہ جیسا ایک بُرا فیصلہ انصاف کی ساکھ تباہ کر دیتا ہے۔ ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے کہا انصاف کے قتل کے اپنے نتائج سامنے آئیں گے۔ اس مقدمے کے آغاز پر معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیئے تھے کہ پانامہ فیصلہ برسوں یاد رکھا جائے گا‘ جس نے سنا‘ اسے حیرانی ہوئی اور فیصلہ کا اور بھی شدت سے انتظار کیا گیا کہ دیکھیں ایسا فیصلہ کیا ہوگا جسے برسوں یاد رکھنے کی بات خصوصی طور پر کی گئی ہے۔ واقعی یہ ایک فیصلہ ہے جو برسوں کیا‘ لمبی مدت تک نہیں بھولے گا۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کے ریمارکس اپنی جگہ‘ لیکن اچھے یا بُرے کی تخصیص کے بغیر فیصلہ تو فیصلہ ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک فیصلہ جسٹس منیر کا بھی تھا جسے نہ صرف یہ کہ اب تک بھلایا نہیں جاسکا بلکہ ملک و قوم اور جمہوریت اب تک بھگت رہی ہے۔ دعا ہے کہ فیصلے ایسے ہوں جو ذاتی پسند یا ناپسند سے بالا رہ کر ملک و قوم کے مفاد کی بہتری کیلئے کئے جائیں۔
٭…٭…٭…٭
پدماوتی فلم کا تنازع، انتہا پسند ہندوئوں نے ہیروئن کی ناک کاٹنے کی دھمکی دے دی
سلاطین خلجی کا دور تھا اور سلطان علائو الدین خلجی حکمران۔ ہندوستان کی پوری تاریخ میں صرف چار حکمران ہوئے ہیں جنہوں نے خیبر سے لے کر راس کماری تک یعنی پورے ہندوستان پر حکومت کی، ان میں پہلا، حکمران راجہ بکرما جیت، جو مہاراجہ کہلایا، دوسرا علائوالدین خلجی، تیسرا غازی محی الدین اورنگ زیب عالمگیر اور چوتھے، انگریز۔ پدماوتی، جنوبی ہند کی ایک راجپوت ریاست، چتوڑ گڑھ کے راجہ کی بیوی تھی جس کے حسن کا چرچا پورے ہندوستان ہی نہیں، ہندوستان کے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔
داستان گوئوں نے کہانی تصنیف کی کہ سلطان پر اسے حاصل کرنے کا خبط سوار ہوا، چنانچہ وہ لشکر جرار لے کر چتوڑ گڑھ پر حملہ آور ہوا۔ اس ننھی منی سی ریاست کی بساط ہی کیا تھی۔ رانی پدماوتی نے جب دیکھا کہ قلعہ سرنگوں ہوا چاہتا ہے تو اس نے سولہ سہیلیوں سمیت چتا میں جل کر خود کشی کرلی۔ سلطان محل تک پہنچا تو راکھ بجھ چکی تھی۔
ابتداً اسے رومانی داستان کے طور پر لکھا گیا پھر بعد میں بعض غیر محتاط تاریخ نویسوں نے اپنی تصانیف میں شامل کر لیا۔ ہندوئوں اور انگریزوں نے اسے مسلمان حکمرانوں کو بدنام کرنے کیلئے خوب اچھالا، بھارت میں حال ہی اس پر ’’پدماوتی‘‘ نام سے فلم بنی ہے جس پر ہندوئوں اور راجپوتوں نے فساد کھڑا کر دیا۔ راجپوت کرنی سینا نامی تنظیم نے سینماگھروں میں توڑپھوڑ کے بعد فلم کی ہیروئن اداکارہ دیپکا پڈکون کے ناک کاٹنے کی دھمکی دیدی۔ فلم یکم دسمبر کو ریلیز ہورہی ہے اور انتہاپسندوں نے اس تاریخ کو ملک بھر میں ہڑتال کی کال دیدی ہے۔
مذکورہ تنظیم کے سربراہ نے جے پور میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پدماوتی راجپوتوں کی عزت و مان کی علامت اور ہماری دیوی ہے۔ کئی ریاستوں نے انتہاپسند بی جے پی کی حکومت کو فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ انتہاپسند بھارتی‘ فرضی داستانوں پر بھی بھڑک اٹھتے ہیں بشرطیکہ وہ مسلمانوں کیخلاف استعمال ہو سکتی ہوں۔
٭…٭…٭…٭
مونا لیزا کے خالق لیونارڈو کی 5 سو سال پرانی پینٹنگ 45 ارب روپے میں فروخت
دنیا کی سب سے نایاب تصویر مونا لیزا کے خالق لیونارڈو ڈاونچی کی ایک اور نایاب پینٹنگ کو ایک شخص نے 45 کروڑ امریکی ڈالرز میں خرید کر اسے دنیا کی سب سے مہنگی پینٹنگ کا درجہ دے دیا۔ نیویارک کے نیلام گھر میں 5سو سال پرانی تصویر سلواتو رمونڈی کو نامعلوم شخص نے ٹیلی فون پر خرید لیا۔ اسے کہتے ہیں شوق دا کوئی مل نئیں۔ لیونارڈو اپنی پینٹنگ مونا لیزا کی بدولت زندہ جاوید ہو چکا ہے۔
مونا لیزا مصوری کا شاہکار اس لیے بھی کہلائی کہ بظاہر معمولی دکھائی دینے والی تصویر کو جو بھی غور سے دیکھے گا اس میں ڈوب جائے گا۔ جہاں تک ’’سلواتو رمونڈی‘‘ کا تعلق ہے اس کا تو نام بھی کسی نے کم سنا ہو گا۔ لیکن شوق کی بدولت مہنگی پینٹنگ کا درجہ حاصل کر گئی۔ شنید ہے اور بظاہر صحیح لگتا ہے کہ اتنی قیمت ادا کرنا ذاتی حیثیت سے کسی کے بس میں نہیں‘ یقیناً اس کے پیچھے کوئی تگڑی پارٹی ہو گی۔ کوئی بعید نہیں کہ اسے دوبئی کے حکمرانوں نے اپنے میوزیم کے لیے خرید لیا ہو۔ جسے وہ پیرس کے شہرہ آفاق میوزیم سے بھی زیادہ دلکش بنانا چاہتے ہیں۔ ویسے ہم تو اس ڈیل کو اپنے حساب سے دیکھیں گے کہ اگر اتنی رقم ہمیں مل جائے تو ہمارے کئی منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
خان آف قلات بانی متحدہ سے ملے، بلوچستان کے واقعات اسی تناظر میں دیکھیں: رضا ہارون
پاک سرزمین پارٹی کے رہنما رضا ہارون نے انکشاف کیا ہے کہ خان آف قلات نے بانی متحدہ کے سیکرٹریٹ لندن میں الطاف حسین سے ملاقات کی۔ بلوچستان میں معاملات کا کراچی سے گہرا تعلق ہے۔ اس کا اعتراف بھارتی جاسوس کلبھوشن بھی کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالیہ واقعات اسی تناظر میں دیکھنے چاہئیں۔
جب سے بھارت نے بلوچستان میں شورش اور علیحدگی پسندی کو ہوا دینے کے لیے علیحدہ سیکرٹریٹ بنایا اور اس کے لیے خطیر رقم را کے حوالے کی ہے۔ بعض مغربی ملکوں میں بلوچستان کے بارے تشہیری اور رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی مہم میں خاصی تیزی آئی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں اور پھر برطانیہ کی بسوں پر بڑے بڑے بینرز دیکھنے میں آئے اور بعض لوگوں جیسے بانی قائد اور بلوچستان کے دیگر علیحدگی پسندوں کے میل ملاقات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
بلوچستان کے عوام محب وطن ہیں اور انہیں کوئی قوت پاکستان سے علیحدہ نہیں کر سکتی۔ لیکن اس کے باوجود دشمن، کشمیریوں کے حق خودارادیت کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کو فروغ دینے پر تلا ہوا ہے۔