ہر شخصیت مینارہ نور ہوتی ہے ۔ با وقار و با کردار ہوتی ہے۔ اصول کی پاسدار اور حق و حقیقت کی طرفدار ہوتی ہے ۔ مذاہبِ ثلاثہ جن کو ادیانِ منہاج ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے وہ بھی احکامات و قوانین کا سر چشمہ ہیں لیکن زمانے کے سرد و گرم نے انھیں خاص نکتہ نظر سے منسوب و منسلک کر دیا۔ یہودیت نسلی مذہب ٹھہرا، عیسائیت ذاتی اور اسلام انسانی الہامی ضابطہ حیات بنا۔اسلام کی بنیاد توحید و رسالت و عدل پر ہے۔
اسلام کو انسانی حقوق کا ضامن دین گردانا جاتا ہے۔ جہاں انسانی تکریم کی بے حرمتی ہو اور انسانی حقوق کی پاسداری نہ ہو وہاں اسلام نہیں بلکہ اسلام کے لبادے میں فریب کار ملوکیت ملے گی۔ قائد اعظم بانی پاکستان تھے۔ ان کی تقاریر سے سیاسی بصیرت، دینی عزیمت اور سماجی حقیقت جلوہ گر ہیں۔ انھوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کو حیات باوقار کے تین اصول دیئے۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم۔ قائداعظم نے قومی معاملات میں ہمیشہ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے مشاورت کی۔ علامہ اقبال نے جو خطوط قائد اعظم کو لکھے وہ بصیرت و سیاست کے آئینہ دار ہیں۔ قیامِ پاکستان میں علامہ اقبال کی فکری رہنمائی نے سنگ میل کا کردار ادا کیا۔ دو قومی نظریہ کو بشکل پاکستان قائد اعظم نے عملی جامہ پہنایا۔ قدرت کی کرم نوازی ہے کہ بانیان پاکستان نے جہاں مسلم ریاست کے قیام کے لئے جدو جہد کی وہاں جدید تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعبیر و تفسیر بھی کی۔ دونوں رہنما صاحب بصیرت تھے۔ صاحب دین و دانش تھے۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا۔ مقصدِ پاکستان علامہ اقبال نے یوں بیان کیا۔
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
غبارہ آلودئہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
افسوس صد افسوس! امتِ محمدیہ مسلمان کہلوانے کی بجائے مصری، ایرانی، عربی، شامی، ترکی اور پاکستانی کہلواتی ہے۔ فرقہ واریت اور قبائلی، نسلی اور لسانی تنازعات کا شکار ہے۔ اقبال نے اسلام کو جمیعتِ اقوام نہیں جمیعتِ آدم کا دین قرار دیا ہے۔ قائد اعظم فکری مواد اور نظریاتی تقویت علامہ اقبال کے افکار سے حاصل کرتے تھے ۔ علامہ اقبال کے وفات کی جب انھیں خبر ملی تو وہ ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ انھوں نے صدارتی اجلاس میں خطاب فرمایا ’’ اگر مجھے ایک طرف ہندوستان کی سیاست پیش کی جائے اور دوسری طرف کتبِ علامہ اقبال تو میں اقبال کی شاعری کی تصانیف قبول کروں گا۔‘‘ قائد اعظم نے ایمان کے لفظ کو ’’یقین‘‘ کے مضمون میں لیا۔ یہ یقین خودی اوار خود اعتمادی کا غماز ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے خانہ کعبہ میں کہا تھا کہ وہ ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی نہیں دیں گے اور تین ماہ میں الیکشن کروا دیں گے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ شجاع نواز سابق آرمی کمانڈر انچیف پاکستان آصف نواز کے بھائی ہیں اور آجکل امریکہ میں ایک تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔ 1967 ء میں جب گارڈن کالج راولپنڈی میں ادبی بار کلب کا صدر تھا تو وہ نائب صدر تھے اور انگریزی کے معروف مقرر تھے۔ ٹیلیفون پر گاہے بگاہے ان سے میرا رابطہ رہتا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’Crossed Roads ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے پاک فوج کے ماٹو یونٹی، فیتھ اینڈ ڈسپلن کو تبدیل کر کے ایمان، تقویٰ اور جہاد کر دیا۔ اس موضوع پر مفصل اور فکر انگیز کالم مورخہ 28 اکتوبر 2017 کے نوائے وقت میں ممتاز مدبر و کالم نگار قیوم نظامی صاحب نے بعنوان ’’ جناح سے ضیاء تک‘‘ لکھا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی ایک شعر میں تین اصول دیئے تھے۔
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ مردوں کی ہیں شمشیریں
یقین ، علم اور محبت ڈاکٹر اقبال نے زندگی کے جہاد یعنی جدوجہد کے سنہری اصول قوم کو دیئے۔ یقین کا متضاد لفظ بے یقینی ہے جسے گمان اور تشکیک بھی کہتے ہیں۔ قرآن مجید نے متشکیکین کو ’’ممترین‘‘ کہا ہے۔ تشکیک مغربی فلسفہ کے ہاں ایک موضوع ہے۔ علامہ اقبال نے بے یقینی کو کافری سے بد تر کہا۔ فرمایا’ یقیں پیدا کر کہ اے غافل کہ مغلوبِ گماں ہے تو‘‘۔ مسلمانوں کو عمل کی تلقین کی۔ بد تدبیری، سستی، غلامی اور بے عملی کے خلاف علامہ اقبال فرماتے ہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
حرف آخر تعمیر و تشکیل انسانیت کے لئے محبت ہے۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ بقول؛ حافظ شیرانی …؎
خلل پذیر بو دہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی زا خلل است
بانی پاکستان قائد اعظم نے قوم کو تین سنہری اصول اتحاد، ایمان اور تنظیم دیئے۔ اتحاد سے ان کی مراد تھی کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہمیں علاقائی، لسانی، طبقاتی، گروہی اور مسلکی اختلافات سے دور رہنا ہو گا۔ انھوں نے کئی بار اپنی تقریروں میں پر زور الفاظ میں ملی و مذہبی تعصبات کی نفی کی اور کہ ہم پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی اور بنگالی بن کر نہیں بلکہ پاکستانی بن کر ہی زندہ و مضبوط قوم بن سکتے ہیں۔ اتحاد سے ہاتھ کی پانچ انگلیاں مُکا بن کر دشمنوں کا منہ توڑ دیتی ہیں اور فقدان اتحاد سے خود ٹوٹ جاتی ہیں۔ بحرذ خار وار ذروں کے اتحاد سے صحرائے بسیط بنتا ہے۔ اتفاق و اتحاد سے زُلفِ ملت سنورتی ہے اور نقاق و انتشار سے بکھرتی ہے۔ منظم ملت باعثِ تکریم ہوتی ہے۔ غیر منظم قوم کی مثال ریوڑ کی مانند ہے ۔ کسی قوم کی ذہنی کیفیت کو سمجھنا ہو تو اس کا ٹریفک کا نظام دیکھ لیں ۔ اگر لوگ قواعد و ضوابط کے مطابق گاڑیاں چلا رہے ہوں تو قوم سلیقہ شعار، ذمہ دار اور باوقار ہو گی اور اگر لوگ شتر بے مہار کی طرح ٹریفک کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر حادثات کا شکار ہو رہے ہوں تو قوم نا ہنجار، بد کردار، بے وقار ہو گی۔ قوم کو فکری و عملی طو پر منظم کرنے کے لئے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہم میں ناپید ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا …؎
نغمہ کجا و کجا سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را
ایمان کا مطلب خدا پر بھروسہ، اپنی ذات پر اعتماد اور مثبت اندازِ فکر و عمل ہے۔ نپولین نے کہا تھا کہ ناممکن کا لفظ میری لغت میں نہیں ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان بنا کر نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔ قائد اعظم آہنی عزم کے مالک تھے ۔ ایمان کی قوت سے سرشار اور ارادے کی پختگی میں مانند کوہسار تھے۔ بقول اقبال ؎ …؎
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
افسوس صد افسوس! قائد اعظم کے ان تین سنہری اصولوں کو جنرل ضیاء الحق نے تین خود ساختہ نعروں میں بدل دیا۔ ایمان، تقویٰ، جہاد۔ ایمان سے فرقہ واریت، تقویٰ سے ملائیت اور جہاد سے دہشت گردی نے جنم لیا۔ ارادہ نیک ہو لیکن عمل خیر و شر کا غماز ہوتا ہے۔ ’’امریکی جہاد ‘‘ نے افغانستان کو قبرستان بنا دیا ۔ امریکہ اور چند ممالک نے افغانستان کی اندرونی جنگ کو اسلام کی جنگ قرار دے کر جہادی پیدا کیے۔ بنیاد فساد ڈالی گئی جسے پاکستان کبھی ’’ضرب عضب‘‘ اور کبھی ‘‘ ردالفساد‘‘ کے پروگرام کے تحت بھگت رہا ہے۔ رہی سہی کسر دوسرے جرنیل نے نکال دی۔ 9/11 کا عذاب جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں پاکستان پر نازل ہوا۔ پاکستان آج لہو میں تر بتر ہے۔ نا اہل قیادت نے پاکستان کو بھی قبرستان بنا دیا۔