کراچی کے تھانے اور ریڑھی والے
’’ کراچی کے تھانے ریڑھی والوں پر چلتے ہیں‘‘۔سُپریم کورٹ۔یہ بات سُپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے کہی ہے : ’’ صدر اور اطراف ہزاروں کی تعداد میں ریڑھی والے کھڑے ہیں جنہیں کے ایم سی والے ہٹا نہیں سکتے ، مختلف تھانے اور ایس ایچ او ریڑھی والوں کے چندے اور پیسے پر چلتے ہیں، تھانوں کے معاملات حل ہوتے ہیں ، کے ایم سی کی ملی بھگت سے پارکس، فٹ پاتھ اور سڑکیں کرائے پر دے دی گئیں، پورے شہر کا حال بُرا کر دیا، کے اہم سی والے بہتری کی طرف نہیں جائیں گے کیوں کہ اُن کے پیسے بند ہو جائیں گے لہٰذا شہر کی بہتری کے لئے کے ایم سی افسران کچھ نہیں کر سکتے تو چلے جائیں۔نئے لوگوں کو آگے آنے دیں‘‘۔یہ بات جسٹس صاحبان نے چائے کا کیبن لگانے سے متعلق شکر خان کی درخواست پر پوچھے گئے سوال جواب میں کی ۔دورانِ سماعت درخواست گزار نے عدالت کو بتایا : ’’ میرا دودھ مارکیٹ کے پاس خالی جگہ پر چائے کا کیبن تھاجسے کے ایم سی حکام نے ہٹا دیااور پھر ایک دوسرے شخص کو جگہ دے دی گئی جب کہ میں باقاعدگی سے پیسے دیتا تھا‘‘۔دیکھئے تو کِس بے خوفی سے عدالتِ عالیہ کے سامنے رشوت لینے دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا ’’عدالتوں نے احکامات دیئے کہ تجاوزات ایکدم ختم ہوں،ہوتی بھی ہیں تو اگلے روز دوبارہ نظر آتی ہیں‘‘۔ڈائریکٹر کے ایم سی نے جواب دیا : ’’ میں بلدیہ عظمیٰ میں رینٹ کے معاملات دیکھتا ہوں ، انسداد تجاوزات والے ہی اس پر بہتر بتا سکتے ہیں‘‘ ۔جسٹس سجادعلی شاہ نے کہا:
’’آپ کرایہ کے معاملات دیکھتے ہیں ، فٹ پاتھ کو کرائے پر دے دیا جہاں جنریٹر لگائے ہوئے ہیں ۔ایک جنریٹر کے 25,000 ہزار روپے وصول کرتے ہیں، شہر میں پارک کرائے پر دے رکھے ہیں، سڑکیں کرائے پر دی ہیں‘‘ ۔اِس پر وکیل نے کہا کہ ہم نے شہر کی بہتری کے لئے کام کیا اور کر رہے ہیں۔اِن افسر کی ڈھٹائی بھی دیکھئے کہ عدالت کے روبرو عوام کی بہتری کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ ہائی کورٹ سے صدر کا چرچ نظر آتا تھا ۔کے ایم سی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کو خالی پلاٹ میں نہیں مارکیٹ میں جگہ دی تھی جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کے ایم سی کی ملی بھگت سے شہر کا بُرا حال ہے۔عدالت کے پوچھنے پر درخواست گزار کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تو درخواست گزار نے منع کر دیا جس پر عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔خاکسار اِن کالموں میں تواتر سے ایک بات کہتا آ رہا ہے کہ کوئی سے بھی مسائل ہوں، وہ اُس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک اُن کو صحیح طور پر نافذ نہیں کیا جاتا۔ایک تو یہ اصطلاح ’’ ناجائز ‘‘ تجاوزات ہی غلط ہے۔گویا کوئی جائز تجاوزات بھی ہوتی ہیں۔بر سبیلِ تذکرہ لکھتا چلوں کہ کہ عرصہ چھ ماہ قبل لاہور کے ایوانِ عدل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ داخلے پر واضح بینر نظر آیا ’’ ناجائز رشوت لینے والے کی شکایت فلاں نمبر پر کیجئے ‘‘۔ یعنی جائز رشوت دے دی جائے البتہ ناجائز رشوت مانگنے والے کی نشاندہی کر دی جائے۔ کراچی میں تجاوزات کے معاملات اُسی وقت سدھریں گے جب ڈنڈے کے زور سے قانون نافذ کرایا جائے گا۔ اب تو عدالتِ عالیہ بھی کہہ رہی ہے کہ ایک دن اِن ریڑھی والوں کو ہٹایا جاتا ہے اگلے روز یہ واپس اپنی اپنی جگہوں پر موجود ہوتے ہیں۔جب قانون نافذ کرنے والے ’’ بھتہ ‘‘ لیں گے تو …تو نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہے گا۔ہاں… جس روز عدالتِ عالیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور علاقے کا پولیس افسر اس تجاوزات کا ذمہ دار گردانا گیا اور اس کو سزا بھی ہوئی تب… دنوں میں یہ ’’ تجاوزاتی وائرس ‘‘ ختم ہو جائے گا۔