”پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے“ یہ تاریخی الفاظ میرے نہیں بلکہ اس یگانہ روزگار شخصیت کے ہیں جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ کر کرہ ارض کے جغرافیہ کی لکیریں اور حدیں بدل دیں۔ پاکستان قائداعظم کی سیاسی بصیرت کا ایک معجزہ ہے۔ اسلام کی نشاة ثانیہ اور مسلمانوں کے گمشدہ عروج کی بازیافت بھی۔ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن قائداعظم کی قسمت میں قوم کو دوبارہ عروج کی مسند پر بٹھانا لکھا جا چکا تھا۔ قائداعظم نے ملت اسلامیہ کو زوال سے نکالا اور تاریخ کے دامن میں کچھ اس انداز سے اپنے نام اور کارنامے کو محفوظ کرا لیا کہ اب قیامت تک کوئی بھی دیانت دار مورخ برصغیر کی تاریخ لکھتے ہوئے قائداعظم کی عظمت کردار کر خراج عقیدت پیش کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ برصغیر کی پیچیدہ سیاست کا جو حل قائداعظم نے 1940ءمیں پیش کیا تھا اور پھر 1947ءمیں دنیا کے نقشہ پر قائداعظم کی بصیرت کا مظہر بن کر جو سب سے بڑی ریاست پاکستان کی صورت میں قائم ہوئی تھی۔ برصغیر کی انتہائی الجھی ہوئی سیاست کا یہ حل کل بھی درست تھا اور آج بھی درست ہے۔ قائداعظم جو ایک زمانہ میں کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر بھی کہلاتے تھے وہ قرارداد لاہور منظور کروانے پر کیوں مجبور ہوئے۔ انگریز سامراج اور متعصب ہندو قوم کے مستقل جارحانہ عزائم سے نجات حاصل کرنے کے لئے مسلمان، قائداعظم کی دعوت پر متحد اور منظم ہو کر کیوں ایک ایسی تحریک میں ڈھل گئے جس تحریک نے پھر پاکستان کی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ قائداعظم کو ان کے تدبر اور تجربے نے بتایا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی اقبال مندی اور اسلام کی تجدید و احیاءکا جو نسخہ 1930ءمیں پیش کیا تھا اب مسلمانوں کی بقا اور سربلندی کا وہی واحد حل ہے جسے عملی صورت پہنانے کا وقت آ چکا ہے۔ پاکستان علامہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کے عزم و عمل کے شاہکار کے طور پر قائم ہوا اور پھر قائداعظم یہ فرما گئے کہ پاکستان ایشیا کے مسلمانوں کی حیات نو کا مستقل عنوان بن کر تاریخ کے سینے میں دھڑکتا رہے گا۔
اپنے کالم کی یہ طویل تمہید اٹھانے کی بنیاد تحریک پاکستان کے موضوع پر عالمانہ اور گہری تحقیق کے بعد متعدد کتابیں لکھنے والے نامور مورخ پروفیسر احمد سعید کا ایک خط بنا ہے جو آج ہی مجھے ملا ہے جس میں انہوں نے مجھے ایک اخبار کے تراشے بھی بھیجے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے نائب وزیر اعلیٰ سردار سکھبیر سنگھ نے پاکستان کی سرزمین پر بیٹھ کر یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام میں رشتے مضبوط ہو رہے ہیں۔ اب جلد ہی دونوں ملکوں کے درمیان موجود سرحدیں ختم ہو جائیں گی۔ میں اس بیان کو جاہلانہ کہوں، جارحانہ کہوں یا اسے احمقانہ لکھوں پھر بھی اس بیان میں نامعقولیت کی جو شدت ہے اسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی اور مخاصمت کی سب سے بڑی وجہ جموں و کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ دوسری بڑی وجہ پاکستان کے دریاﺅں کے پانیوں کا رخ موڑ کر ہماری سرسبز و شاداب زمین کو بنجر بنانے کے بھارت کے مذموم عزائم ہیں۔ پاکستان کو 1971ءمیں دولخت کرنے کا سب سے بڑا مجرم بھی بھارت ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں پاکستانیوں کے بے گناہ قتل و غارت گری کے نشانات بھارت کے ہاتھوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر بھارتی حکومت کا کوئی نمائندہ کس منہ سے پاکستان کے ساتھ دوستی اور پیار محبت کے رشتوں کی بات کر سکتا ہے۔ بھارت کے عیار اور مکار حکمران اگر پاکستان کی سرحدوں کے اندر ہی ہمیں آرام اور چین کی زندگی بسر کرنے دیں، ہمارے دریاﺅں پر ڈیم بنا کر ہمیں پانی سے محروم نہ کریں تو انہیں ایک اچھا ہمسایہ تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحدیں ختم ہو جائیں گی اس بے ہودگی کا کیا جواز ہے۔ اگر بھارت کے حکمرانوں اور سیاستدانوں تھوڑی سی بھی انصاف، معقولیت اور انسانیت کی رمق موجود ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو رائے شماری کا حق کیوں نہیں دیتے۔ انڈیا ہمارے آدھے سے زیادہ کشمیر اور جموں پر قبضہ بھی جمائے ہوئے ہے اور محبت اور دوستی کی بات بھی کی جاتی ہے اور امن کی آشا کی ڈفلی بھی بجائی جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے آپ ایک آدمی کی ٹانگیں بھی کاٹ دیں اور پھر مصافحہ کے لئے اس کی طرف ہاتھ بھی بڑھا دیں۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام اسے ہی کہتے ہیں۔ ظاہر میں دوستی اور باطن میں دشمنی۔ بھارت جو ہمارے ہر نقصان اور مصیبت پر بغلیں بجاتا ہے اسے پاکستان کا دوست کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے دغاباز ”یار“ دوست نما دشمن اور آستین کے سانپ کو ہم اپنا ہمدرد و خیرخواہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں۔ قائداعظم اسی لئے برصغیر کے مسلمانوں کے محسن اعظم ہیں کہ انہوں نے ہمیں چھپے ہوئے اور کھلے ہر طرح کے دشمنوں سے لڑ کر پاکستان کی آزادی کی جنگ جیت کر دی۔ ہم آج بھی جنت میں مقیم قائداعظم کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں ڈیڑھ سو سالہ غلامی سے نجات دلانے کے لئے جغرافیہ عالم میں ایک ایسی مملکت کی بنیاد رکھی جس کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ قائداعظم اگر اپنے دل و دماغ کی تمام صلاحیتیں وقف کرکے لاالہ الااللہ کے جذبہ صادقہ پر قوم کو متحد نہ کرتے تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آ سکتا تھا۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کی عزت و آبرو برقرار رکھنے کے لئے اپنا سب کچھ بھی قربان کرنا پڑے تو اس قربانی سے دریغ نہ کریں۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ
"Pakistan has come to stay" پاکستانی قوم اپنے عظیم محسن قائداعظم کے اس قول کو کیسے فراموش کر سکتی ہے۔ حیرت ہے، مقام افسوس ہے، باعث شرم ہے یہ بات کہ بھارتی پنجاب کا نائب وزیر اعلیٰ پاکستان آ کر یہ بیان دیتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیانی بارڈرز جلد ختم ہو جائیں اور ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور گورنر اسے پھولوں کے ہار پہناتے اور قیمتی تحائف پیش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی حکمران کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سکھ وزیر اعلیٰ کی اس کے منہ پر مذمت کرتے۔ مہمان نوازی کے آداب اپنی جگہ لیکن کسی غیر ملکی حکمران کو ہمارے ہاں آ کر یہ جرات نہیں ہونی چاہئے کہ وہ پاکستان کی سرحدوں کے ختم ہونے کی بات کرے۔ پاکستان کی اصل طاقت اسلام اور اسلام کی محافظ مسلمان قوم ہے۔ پاکستان جس نظریہ اسلام پر قائم ہوا تھا وہ نظریہ قیامت تک موجود ہے۔ اس لئے پاکستان کی سرحدوں کو کون ختم کر سکتا ہے۔ پاکستان ایک بے مثال لیڈر کی ہمارے پاس امانت ہے۔ پاکستان کی برتری اور بہتری ہی میں ہم سب کی بقا ہے۔ ہمارے یہ حکمران آتے جاتے رہیں گے۔ ان کے مہمان بھی پاکستان آ کر سرحدیں ختم ہونے کی نامعقول اور ناپسندیدہ باتیں جتنی مرتبہ چاہے دہرائیں لیکن قائداعظم کے اس زندہ قول کی تابانی کبھی ختم نہیں ہو گی کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024