”سیاست میں حصہ لینا صدر کا آئینی حق ہے“ اصغر خان کیس میں نظرثانی کی حکومتی درخواست
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/ نیٹ نیوز/ وقت نیوز) وفاقی حکومت نے اصغر خان کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ڈپٹی اٹارنی جنرل کی وساطت سے نظرثانی کی درخواست جمع کرا دی جسے رجسٹرار آفس نے عدم کورٹ فیس کی رسید کے باعث واپس کر دیا۔ وفاقی حکومت نے ڈپٹی اٹارجی جنرل دل محمد زئی کی وساطت سے سپریم کورٹ میں اصغرخان کیس میں عدالتی فیصلے کے خلاف 16 صفحات کی نظرثانی کی درخواست جمع کرائی جس میں وفاقی حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ سیاسی جماعت سے وابستگی کے باعث صدر کا سیاست میں حصہ لینا ان کا آئینی و قانونی حق ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ عدالت عظمیٰ اصغر خان کیس پر دوبارہ غور کر کے صدرو کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں سے متعلق پیراگراف کو حذف کرے۔ سپریم کورٹ رجسٹرار نے نظرثانی کی درخواست کے ساتھ فیس دس ہزار روپے کورٹ فیس کی رسید جمع نہ کرنے کے باعث واپس کر دی۔ بی بی سی نے سرکاری ٹی وی کے حوالے سے بتایا ہے کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو صدر سے متعلق ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں اور وہ اصغر خان کیس میں صدر سے متعلق آبزرویشن واپس لے۔ درخواست کے مطابق اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدر کے پاس ایگزیکٹو اختیارات نہیں رہے۔ صدر سے متعلق آبزرویشن میں آئین کے آرٹیکل 207 کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصغر خان کیس انیس سو نوے کے انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں تھا اور اس مجیں صدر کے عہدے کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا تھا۔ اس لئے عدالت کو اس معاملے پر خیالات ظاہر نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ واضح رہے سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ 1990ءکے انتخابات میں دھاندلی کے لئے اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کے صدر سے متعلق کہا تھا کہ غلام اسحاق خان نے ایوان صدر میں جو سیاسی سیل قائم کیا وہ غیر آئینی اور غیرقانونی تھا۔ صدر وفاق کی علامت ہے اور وہ کسی گروہ یا جماعت کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ سابق صدر نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا یہ ان کے علم میں نہیں تاہم عدالت میں جو ریکارڈ پیش کیا گیا ہے اس کے مطابق ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل موجود نہیں۔ صدر کو سیاسی کردار ادا کرنے سے متعلق کوئی قدغن نہیں۔ دریں اثناءاصغر خان کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی نظرثانی کی درخواست تیار کر لی ہے۔ وقت نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اسد درانی کل سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے۔ نظرثانی کی یہ درخواست 30 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسد درانی نے اپنے خلاف ممکنہ کارروائی کے حکم پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔ اسد درانی نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ وہ براہ راست رقوم کی تقسیم میں ملوث نہیں۔ جو بھی اقدامات کئے آرمی چیف کے حکم پر کئے۔