کراچی کیوں جل رہا ہے، وہاں امن کیوں قائم نہیں ہو رہا؟ یہ ہیں وہ سوالات جن کا جواب ہر شہری مانگ رہا ہے حکومت بے بس، عوام پریشان، معیشت بد حال ۔یہ ہے کراچی کا منظر نامہ جو آج کا نہیں بلکہ سال ہا سال پرانا ہے ۔ کراچی میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ؟ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ! اس صورت حال کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری جن پر ہے وہ خود مصلحت کا شکار ہیں ، محض حکومت قائم اور گروہی مفادات کی خاطر ملک اور کراچی کے عوام کی سلامتی کو داﺅ پر لگا رکھا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک جانب بظاہر فرقہ وارانہ ، سیاسی و لسانی بنیادوں پر قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب حکمران اتحاد اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دینے کی لفظی جنگ کر رہے ہیں۔
اے این پی سندھ کے صوبائی سیکرٹری جنرل بشیر خان کا کہنا ہے کہ کراچی کی بد امنی اب محض سیاسی جماعتوں کی چپقلش کا نتیجہ نہیں رہی۔پہلے کسی وقت میں ٹھیک ہے کہ یہ بات کہی جاتی تھی کہ یہ دو سیاسی جماعتوں کا جھگڑا ہے یا دو قومیتوں کا جھگڑا۔ مگر اس وقت تو ایسی کوئی صورت حال نہیں پھر بھی کراچی میں بد امنی میں کمی نہیں آ رہی۔ اب باتوں کا وقت جا چکا جو بھی جرائم پیشہ عناصر ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے اوراگر پولیس یا رینجرز یہ کام نہ کر سکیں تو پھر فوج کو طلب کیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جرائم ان ملکوں میں رکتے ہیں جہاں مجرم کو پکڑے جانے، جیل جانے، عدالت سے سزا ملنے کا خوف ہو۔ بد قسمتی سے یہاںکوئی یا تو پکڑا نہیں جاتا، یا چھوٹ جاتا ہے یا عدالت سے ضمانت لے لیتا ہے یا پے رول پر رہا ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں بے بس و بے اختیار ہیں تو پھر اے این پی اور ایم کیوایم حکمران اتحاد اور اقتدار سے علیحدہ کیوں نہیں ہو جاتیں۔اس کے جواب میں ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ ہر جماعت سیاست اس لیے کرتی ہے کہ حکومت میں رہ کر اپنے لوگوں کی خدمت کرے۔ہم نے کراچی ہی کی خراب صورت حال کو دیکھتے ہوئے گزشتہ جولائی میں استعفے دے دئیے تھے جس پر یہاں کے حالات مزید بے قابو ہوگئے اور مرکزی حکومت کے رہنما ہمارے پاس آئے کہ آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور یوں ویکیوم کری ایٹ کرنا کراچی اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
سیاسی جماعتیں کوئی بھی موقف اپنائیں اور حکومت کچھ بھی کہتی رہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ چاہے ان کا کوئی بھی مسلک ہو اور وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں وہ نا معلوم قاتلوں کے رحم و کرم پر ہیں اور ریاست کی عملداری ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی کہیں نظر نہیں آتی۔کراچی کی صورت حال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ کراچی میں امن قائم کرنے میں حکومت مکمل طور پر نا کام ہو چکی ہے۔ ذرا سوچئے توملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی کی تاجر برادری کی اکثریت نے نہ صرف صنعتی علاقوں میں قائم اپنے کارخانوں اور دفاتر میں جانا چھوڑ دیا ہے بلکہ کاروبار جاری رکھنے کے لیے سی سی ٹی وی طرز کے الیکٹرانک کیمرے نصب کر کے شہر کے قدرے پر امن علاقوں میں اپنے دفاتر کی ریموٹ نگرانی شروع کر دی ہے۔ یہ تاجر اپنے گھروں یا عارضی مراکز سے پیداوار اور صنعتی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کراچی شہر میں رہنے والے ارب پتی سرمایہ دار یا صنعت کاروں کو فیکٹر ی جانے کے لیے بھیس بدلنا پڑے۔ میلے حلیے میں عام آدمی بن کر موٹر سائیکل پر ڈرتے ہوئے جانا پڑے اور پھر بھی یہ خوف ہو کہ کوئی ان کا موبائل نہ چھین لے یا کسی اندھی فائرنگ کا شکار نہ ہو جائیں تو پھر وہ کلوز سرکٹ ٹی وی کے ذریعے ہی اپنے کاروبار کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بجلی کو لوڈ شیڈنگ انہیں سی سی ٹی وی کے ذریعے بھی کاروبار سنبھالنے کا موقع نہیں دیتی۔ کوئی غیر ملکی سرمایہ کار کراچی میں سرمایہ کاری کا نہیں سو چ رہا یہ سرمایہ کار بنگلہ دیش اور بھارت کا رخ کر رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو جوہری طاقت رکھتا ہو جہاں افرادی قوت بے شمار ہو جس کی بنیاد زراعت پر ہو ، غلہ اور کھانے پینے کی اشیاءملک میں ہی پیدا ہوتی ہوں وہ ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں کیوں نا کام ہے۔دو کروڑ آبادی کا شہر کراچی جو ایک بہت بڑی معاشی قوت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ کیوں اس حال تک پہنچا اور اب تک ا س کی حالت درست کرنے کے لیے رسی کا سرا کیوں نہیں پکڑائی دے رہا۔ اس کی وجہ صر ف اور صرف ایک ہے کہ ہماری نیت درست نہیں اگر نیت درست ہو اور عزم مستحکم ہو تو معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں کراچی کی سیاسی قیادت خاص طور پر ایم کیوایم ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کو اپنی روش درست کرنی چاہئے ، علاقائی ، گروہی اور پارٹی مفاد سے بالا تر ہوکر کراچی کی صور ت حال کو سنبھالنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پانی گردن سے اوپر اٹھ رہا ہے۔ اسے منہ اور ناک تک نہ پہنچنے دیں ۔ کراچی پاکستان کا پہلا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ بانی¿ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا آبائی شہر بھی ہے۔
قیام پاکستان کے وقت کراچی صنعتی اور معاشی اعتبار سے پاکستان کا واحد بڑا شہر تھا جہاں روزگار کے مواقع وسیع پیمانے پر موجود تھے یہی وجہ ہے کہ پاکستان آنے والے مہا جرین کی اکثریت نے روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کیا اور نواحی علاقوں میں نئی بستیاں آباد ہونے لگیں۔کراچی پر بڑھتے ہوئے آبادی کے دباﺅ اور وسائل کی کمی کے باعث دارالحکومت کو اسلام آباد شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تا ہم کراچی کی معاشی اور صنعتی ترقی اس فیصلے سے متاثر نہ ہوئی بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہونے گا۔1960 کی دہائی میں کراچی ایک اقتصادی رول ماڈل کے طور پر سامنے آیا۔ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک نے کراچی کی ترقی کے انداز کو اپنانے کے لیے اپنے مطالعاتی وفود کراچی بھیجے۔ کوریا کے دارالحکومت سیول کی منصوبہ بندی کراچی کے ترقیاتی ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی۔ سیول کا عالمی تجارتی سینٹر بھی کراچی کی طرز پر تشکیل دیا گیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے بخوبی واقف ہیں کہ ملک میں جمہوری حکومتوں کی مدت قلیل اور آمریت کی مدت طویل رہیں ہیں۔ملک کے آمر حکمرانوں نے اپنی حکومت کو جاری رکھنے کے لیے صرف اپنی ناک کے سامنے آنے والے معاملات کی طرف توجہ دی اور اقتدار کی خاطر سب کچھ داﺅ پر لگائے رکھا۔کراچی میں ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین اور ملک کے دوسرے علاقوں سے نقل مکانی کر کے کراچی آنے والے افراد کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اسی بنا ءپر 1970اور1972 میں کراچی کے صنعتی علاقے میں مزدوروں کی ہڑتال ہوئی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد بہاری مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہو گئی۔1980ئسے 1990ءکے دوران میں افغان سوویت جنگ کی وجہ سے افغانستان کے پشتونوں اور صوبہ سرحد اور بلوچستان کے باشندوں کی بڑی تعداد نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ اس طرح کراچی میں مہاجرین (اردو بولنے والے) اور پشتو بولنے والوں کی تفریق اور مفادات نمایاں ہو کر سامنے آنے لگے ساتھ ہی ساتھ کراچی کی مقامی سندھی آبادی اور پنجابیوں کے درمیان میں گروپ بندی ہوتی رہی اور اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ کراچی پاکستانیوں کا شہر بننے کی بجائے مہاجرین(MQM) سندھیوں، پشتونوں اور پنجابیوں کی بستیوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس گروپ بندی کی وجہ سے سیاسی اور لسانی فسادات کو ہوا مل رہی ہے۔
وقت کے ساتھ عالمی طاقتوں کے مفادات بھی کراچی سے وابستہ ہو گئے ہیں۔کراچی اس وقت افغانستان میں موجود نیٹو کی افواج کو توانائی اور خوراک پہنچانے کے لیے Hub کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی چاہتے ہیںکہ کراچی میں اس طرح کا امن ہو جو انہیں مشکلات سے دوچار نہ کرے ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مغربی ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کراچی کا کنٹرول اگر انکے پروردہ لوگوں کے پاس ہو تو انہیں آسانی ہے ۔ چاہے اس پر عمل کرتے ہوئے کراچی کو پاکستان سے الگ ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔عالمی قوتوں کے اس وقت پاکستان میں تین اہم ہدف ہیں۔ (iپاکستان کو جوہری طاقت سے محروم کرنا،(iiبلوچستان پر اپنی عمل داری قائم کر کے وہاں کے معدنی ذخائر حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بیٹھ کر چین اور ایران پر نظر رکھنا تا کہ مستقبل میں کیسپئین اور وسط ایشیائی تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔(iiiکراچی کو اس حد تک غیر مستحکم کرنا کہ وہ پاکستان سے الگ ہو کر اپنا علیحدہ تشخص قائم کرے تا کہ امریکہ اور مغربی اتحادی اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکیں۔
بد قسمتی سے کراچی کو اس صورت حال تک پہنچانے میں بنیادی کردار ہمارے حکمرانوں کا ہے اس کے بعد غیر ملکی مفادات کے اثرات ہیں۔اگر ہم اپنا گھر اور نیت درست کر لیں تو کراچی کو غیر ملکی چنگل میں جانے سے نکالا جا سکتا ہے لیکن اگر ہمارے حکمران اب بھی کبوتر کی طر ح آنکھ بند کر کے بیٹھے رہے اور صرف سیاسی مفادات ہی کو مقدم سمجھتے رہے تو کراچی کی صورتحال گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی رہے گی۔ یہ وقت اس بحث کا نہیںکہ MQM دہشت گرد تنظیم ہے یا نہیں یا پشتون اور سندھی عوام لسانیت کا پرچار کر رہے ہیں یا کراچی میں MQMانتخابات جیتے یا پیپلز پارٹی۔ وقت کاتقاضا ہے کہ ہم شکاریوں کی نظریں کراچی سے ہٹائیں اور اس کے لیے اجتماعی سیاسی will اور نیک نیتی بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اس کام کو انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے بڑے سیاستدانوں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور میڈیا کو اپنا قومی کردار کھل کر ادا کرنا چاہیے۔ وقت کسی کا انتظارنہیں کرتا، جو قومیں یہ تقاضے پورے نہیں کرتیں ان کے جغرافیے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ہمیں اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمارے حکمرانوں کی سوچ میں پاکستانیت پیدا کرے۔ آمین
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024