دنیا کے ہر ملک میں اپنے وسائل سے بڑھ چڑھ کر زندگی گزارنے والے لوگ موجود ہیں لیکن پاکستان کا معاملہ دنیا والوں سے جدا ہے۔ یہاں کا اشرافیہ حکومت اور حکومتی ادارے اپنے وسائل کی پرواہ کئے بغیر شاہ خرچیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ معاشرہ میں عدم توازن اپنی شاہ خرچیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ شاہ خرچیاں زیادہ تر ناجائز کمایوں اور قرضوں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ معاشرہ میں عدم توازن انہی شاہ خرچیوں کی وجہ سے دکھائی دے رہا ہے۔ سرکاری دفاتر کے ہیڈ کلرک کی میز پر لمبا چوڑا شیشہ نہ ہو تو اس کی افسری بے معنی دکھائی دیتی ہے۔ ٹیبل لیمپ اور آئینہ اضافی چیزیں ہیں دفاتر میں چائے کے لئے ہیٹر کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ ہر دفتر بجلی کا نادہندہ تھانیداروں کے کے تھانوں میں آراستہ بیڈ روم ہیں ان فضول خرچیوں پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ کاری بچتوں کی محتاج ہے ٹیکسوں سے آمدنی اور اخراجات میں گہرا تضاد ہے۔ سادگی اور کفایت شعاری کا تو لفظ بھی افسروں پر گراں گزرتا ہے۔ گریڈ 18 سے 22 تک کی بیوروکریسی کے لئے GOR دراصل نو گو ایریا میں ریلوے ہچکیاں لے رہی ہے اور میو گارڈن میں ریل کے شہزادوں کے لئے نئے بنگلے تعمیر کئے گئے ہیں۔ جھگیوں میں رہنے والوں کے بچوں کے منہ نہیں دھلتے جبکہ GOR اور میو گارڈن میں رہنے والے وائٹ کالر افسروں کی گاڑیوں کے ٹائر چمکانے کے لئے بھی سرف استعمال کیا جاتا ہے شاید امریکی بیوروکریسی کے بھی یہ ٹھاٹھ نہ ہوں بیوروکریسی کے باغات پولوگراﺅنڈز، سوئمنگ پولز، شوٹنگ گیلریز پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ وزراءکے بنگلوں کی تو بات ہی کیا ان کے گرد باڈی گارڈز کا حصار ہوتا ہے۔ ہماری GDP ٹیکس ریشو دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ مہنگائی کا ذکر ہو تو صاحبان اقتدار کا ایک ہی جملہ ہوتا ہے دنیا بھر میں قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں تجارتی خسارہ کو بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیل نے سہارا دے رکھا ہے وسائل کے اندر رہ کر افراد اور حکومت زندگی نہیں گزاریں گے قرضوں کا سیلاب ہمیں طوفان نوح کی طرح ڈبو دے گا عالمی سطح پر ہماری باتیں ہمارے احتجاج اور مطالبات رکشے کے شور کی طرح ہوں گے۔ پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ گھسا پٹہ ہے مقابلے کے امتحان میں اوپر آنے والے بالادست قرار پاتے ہیں ہر محکمے کے لئے ٹیکنیکل نالج درکار ہے وزارت مذہبی امور کے لئے عالم فاضل سیکرٹری کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے لئے پروفیسر عطاءالرحمن جیسے پروفیسر کو سیکرٹری کا منصب ملنا چاہئے۔ صحت کی کرسی پر کسی ٹاپ کے ڈاکٹر کو براجمان ہونا چاہئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا سیکرٹری ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسا سائنسدان ہو۔ یہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر اختیارات اور ٹھاٹھ باٹھ کی چمک دمک دیکھ کر مقابلے کے امتحان میں شریک ہو کر SP اور DPO لگنا پسند کرتا ہے۔ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات کرنے والی کوئی حکومت نہیں آئی لکیر کا فقیر ہونے کا نام دراصل بادشاہت ہے بیوروکریسی ہی آٹوکریسی ہے۔ ہم بڑھتے ہوئے قرضوں پر جتنا ماتم اور واویلا کریں کم ہے لیکن اس سے حاصل کچھ نہیں ہوا نہ ہو گا۔ حکومت نے کام نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو عدالتیں کیا کریں ملکی امور کے بارے میں حکمرانوں کے پاس اخلاص نام کی کوئی چیز نہیں۔ اچھی معاشی ٹیم بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
ڈسپلن ویسے کہیں نہیں مالیاتی ڈسپلن تو بالکل نہیں ہے۔ اخراجات ٹیوب ویل کے پانی کی طرح ابل ابل کر سامنے آ رہے ہیں اور اب تو حکومت اپنے الوداعی ایام کی طرف بڑھتی جا رہی ہے اور انتخابات کی آمد آمد ہے جلسے جلوسوں پر بھی پیسہ بے دریغ لٹایا جائے گا۔ حکومت خود انتخابات لڑنے جا رہی ہے لیکن اس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں صرف قرضوں کی زنجیریں ہیں اب تو ہر سیاسی شخصیت کے لئے بلٹ پروف گاڑی ناگزیر ہے۔ حکمرانوں کے لئے طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور بڑی گاڑیوں پر قرضوں کے پیسے لٹائے گئے۔ مجموعی قرضے 14561 ارب روپے ہو چکے ہیں ہر شخص 81 ہزار روپے کا مقروض نظر آ رہا ہے۔ غربت کی شرح کل آبادی کا 58 فیصد ہے۔ حکومت یومیہ ساڑھے پانچ ارب روپے قرضہ لینے پر تلی ہوئی ہے۔ حکومت کے نزدیک آڈٹ رپورٹوں کی حیثیت ردی سے زیادہ نہیں۔ سینٹ میں بتایا گیا کہ 16 حکومتی اداروں کے آڈٹ سے 294 ارب روپے کی ریکوری ہو سکتی ہے گذشتہ چار سال کے مجموعی قرضے آزادی سے پہلے 60 برسوں میں جمع واجب الادا رقوم سے دوگنا ہو چکے ہیں۔(جاری)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024