جرمن اخبار نے پاکستان پر حملے میں بھارتی رافیل کی تباہی کو مغرب کے لیے سبق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ محض جدید ٹیکنالوجی اب چین یا روس جیسے حریفوں کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں رہی، ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسائل کے مؤثر استعمال کیلئے قابلِ اعتماد شراکت داروں کے ساتھ قریبی ہم آہنگی ضروری ہے، بھارت نے تنہا کارروائی کرنے کی کوشش کی اور ناکام ہوا،۔جرمن اخبار میں شائع مضمون کے مطابق سوشل میڈیا پر شوقین افراد اور ماہرین بھارتی فضائیہ کے رافیل لڑاکا طیارے کے ملبے کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں، جن میں طیارے کی دم اور انجن کے حصے واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق پاکستان نے فرانسیسی ساختہ یہ طیارہ فضائی جھڑپ کے دوران چینی ساختہ چینگڈو جے 10 ملٹی رول فائٹر جسے ’مائٹی ڈریگن‘ بھی کہا جاتا ہے اور پی ایل 15 ایئر ٹو ایئر میزائل کے ذریعے مار گرایا۔رافیل طیاروں کی تباہی سے بھارت کا آپریشن ’سِندور‘ ناکامی میں بدل گیا، امریکی اور اسرائیلی طرز پر تیزی سے خفیہ اور بغیر کسی نقصان کے اہداف کو نشانہ بنانے کی امید رکھنے والے بھارتی پائلٹوں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اسلام آباد نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کل تین رافیل طیارے اور دو سوویت ساختہ جنگی طیارے مار گرائے ہیں، تاہم ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔حقیقت میں کیا ہوا، اس کے شواہد سب کے سامنے موجود ہیں. مگر نئی دہلی تاحال ان نقصانات کی تردید کر رہا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ آپریشن سندور مکمل طور پر کامیاب رہا۔نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں قائم حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپریل کے حملوں کی حمایت کی تاہم، پاکستان کو سبق سکھانے کی بجائے بھارت کو خود بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
مضمون کے مطابق جیسے ہی رافیل طیارے کے مار گرائے جانے کی خبر سامنے آئی. پیرس میں قائم طیارہ ساز کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن کے شیئرز کی قیمت میں فوری کمی واقع ہوئی، دوسری جانب جے 10 طیارے بنانے والی چینی کمپنی چینگڈو کے شیئرز کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا۔یہ صرف سرمایہ کار ہی نہیں جو ان واقعات سے پریشان ہوئے ہیں. موجودہ جیو پولیٹیکل ماحول میں رافیل طیارہ یورپ کے لیے نہایت اہم اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے، اگر یہ سسٹم روسی اور چینی فضائی دفاعی نظام کے خلاف فضائی لڑائی میں مؤثر ثابت نہ ہو سکا، تو یورپ کی اسٹریٹجک خودمختاری کے لیے کیا نتائج نکلیں گے؟ بالخصوص جب کہ اس کی بنیاد رافیل جیسے طیاروں پر ہے؟فرانس کی فضائیہ، جسے ’آرمی دے لائر‘ کہا جاتا ہے، انہی رافیل طیاروں کو ممکنہ جوہری مشنوں کے لیے استعمال کرتی ہے، جن میں ملک کے جوہری ہتھیاروں کو لے جانا شامل ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طیارے فرانس کی جوہری دفاعی حکمتِ عملی کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔خالص تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو رافیل اور چین کا چینگڈو جے 10 جنگی طیارہ ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں، تاہم رافیل کو کچھ برتری ضرور حاصل ہے، دونوں طیارے 4.5 جنریشن کے لڑاکا طیاروں کے درجے میں آتے ہیں. یعنی یہ مسلسل جدید صلاحیتوں سے لیس کیے جاتے ہیں، اگرچہ ان کا ریڈار پر نمایاں ہونا ممکن ہوتا ہے، برخلاف امریکی ساختہ ایف 35 اسٹیلتھ اسٹرائیک فائٹر کے، جو ریڈار سے بڑی حد تک پوشیدہ رہتا ہے۔رافیل کو جو برتری حاصل ہے. ان میں سے ایک ’ملٹی سینسر ڈیٹا فیوژن‘ کی صلاحیت ہے، جو پائلٹس کو مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر جنگی صورتِ حال کی انتہائی مفصل تصویر فراہم کرتی ہے، اور یہ سارا ڈیٹا نظام خودکار طور پر پس منظر میں یکجا کرتا ہے۔مضمون کے مطابق جنگی طیاروں کے بارے میں دستیاب زیادہ تر معلومات ان کے تیار کنندگان کی جانب سے جاری کی جاتی ہیں، لیکن عملی فضائی لڑائی کی صلاحیتوں کے بارے میں یہ تفصیلات بہت کم بتاتی ہیں، تاہم 7 مئی کی ابتدائی ساعتوں میں رافیل طیاروں کی تعیناتی سے متعلق سامنے آنے والی معلومات کہیں زیادہ واضح نتائج اخذ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔بھارت کی وزارتِ دفاع کے مطابق یہ مشن مقامی وقت کے مطابق رات 1 بج کر 15 منٹ پر شروع ہوا اور کل 23 منٹ تک جاری رہا. 1971 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر حملہ کیا. یہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا جو کہ صورت حال کے ناکافی تجزیے پر مبنی تھا، بھارت نے نہ صرف پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو کم تر سمجھا بلکہ اپنی تکنیکی برتری پر حد سے زیادہ اعتماد بھی کیا۔لائن آف کنٹرول کے اس پار پاکستان نے چینی زمین سے فضا میں مار کرنے والے نظاموں اور متعدد ہوائی اڈوں پر مشتمل ایک مربوط، کثیر سطح فضائی دفاعی نظام تیار کر رکھا ہے، جہاں سے کسی بھی وقت جنگی طیارے اڑان بھر سکتے ہیں۔ریڈار سسٹمز، نگرانی کرنے والے طیارے اور ممکنہ طور پر چین سے حاصل کردہ انٹیلی جنس معلومات کے ذریعے پاکستانی فضائیہ فوری ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔کچھ بھارتی پائلٹ اس دفاعی حصار کو عبور کرنے اور پاکستان کے اندر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے تاہم شدید فضائی جھڑپیں بھارتی حدود میں ہوئیں۔اوپن سورس انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق تقریباً 100 جنگی طیارے اس کارروائی میں شامل تھے، رافیل طیارے کا ملبہ اور چینی ساختہ میزائل، جو ممکنہ طور پر اس طیارے کو نشانہ بنانے میں استعمال ہوا، لائن آف کنٹرول کے بھارتی جانب سے برآمد اور محفوظ کیا گیا۔مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ فی الحال بھارت کے رافیل جنگی طیارے کی تباہی نے یورپی ممالک کے لیے ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ محض جدید ٹیکنالوجی اب چین یا روس جیسے حریفوں کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں رہی۔ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسائل کے مؤثر استعمال کیلئے قابلِ اعتماد شراکت داروں کے ساتھ قریبی ہم آہنگی ضروری ہے، بھارت نے تنہا کارروائی کرنے کی کوشش کی اور ناکام ہوا۔