نوازشریف کا دوسرا دور تو بینظیر حکومت پر ارشاد حقانی کی سخت نکتہ چینی اور مواخذہ کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا لیکن نوازشریف نہ صرف ان کے تنقیدی کالموں پر برہم ہوئے بلکہ میر شکیل الرحمن سے یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا کہ ارشاد حقانی سمیت چند ممتاز صحافیوں کو ’’جنگ‘‘ سے نکال ہی دیا جائے۔ اس موقع پر میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کی طرف سے لاہور کے ایک ہوٹل میں احتجاجی سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کے مقررین کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا‘ پرائم منسٹر ہائوس سے میاں نوازشریف کے پریس سیکرٹری رائے ریاض حسین جن سے راقم کے دوستانہ اور برادرانہ روابط بھی تھے مجھے فون کرکے اس سیمینار میں شرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی‘ مگر میںنے ان سے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ میں اس سیمینار میں شرکت کا وعدہ کرچکا ہوں اور میرا نام میری اجازت سے مقررین کی فہرست میں شائع ہوچکا ہے‘ اس لئے اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا‘ میں نے اس سیمینار میں اپنی تقریر میں ارشاد حقانی کو ادارہ ’’جنگ‘‘ سے الگ کرنے کے مطالبہ کی شدید مذمت کی اور نوازشریف کو یاد دلایا کہ آج وہ اقتدار کے جو مزے لُوٹ رہے ہیں یہ اقتدار ان کو بے نظیر بھٹو کے دور حکومت کے خلاف ارشاد حقانی کی جارحانہ نکتہ چینی کے نتیجے میں تبدیل ہونے والی رائے عامہ کی بدولت حاصل ہوا ہے‘ ارشاد حقانی صاحب کی صاحبزادی اتفاق سے اس سیمینار میں موجود تھیں۔ ارشاد صاحب نے فون کرکے مجھے بتایا کہ میری بیٹی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کے حق میں سب سے زیادہ پُرزور آواز جمیل اطہر نے بلند کی ہے۔
ارشاد احمد حقانی نے جنہیں ہمیشہ خلوت عزیز رہی انتقال سے چند لمحے قبل اپنی بیٹی اور بیٹوں سے کہا مجھے کچھ وقت کے لئے علیحدگی درکار ہے‘ میں آرام کرنا چاہتا ہوں اور یہ الفاظ ادا کرنے سے چند ہی ساعتیں بعد وہ ابدی آرام کے لئے چلے گئے اور اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ بھٹو‘ ضیاء الحق نوازشریف‘ بینظیر بھٹو‘ پرویز مشرف اور آصف زرداری سے انہوں نے معاشرتی زندگی میں انقلاب کی جو اُمیدیں وابستہ کیں وہ بدقسمتی سے پُوری نہیں ہوسکیں اور ہر بہتری کی آرزو میں جس تبدیلی کے لئے انہوں نے اپنا قلم استعمال کیا اور اس سے تیغ کا کام لیا وہ تبدیلی بہتری لانے کے بجائے مزید ابتری کا باعث بنی۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی روح نوجوان صحافیوں کی طرف دیکھ رہی ہے جو پاکستان کا حقیقی مستقبل اور وطن عزیز کی قومی صحافت کا روشن کل ہیں کہ ان کے آدرشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قلم کا ہتھیار بروئے کار لائیں گے اور وسیع مطالعہ‘ و مشاہدہ کو بروئے کار لاکر پاکستان کو قائداعظمؒ علامہ اقبالؒ اور ارشاداحمد حقانی کے خوابوں کا مُلک بنانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔
1965ء کے بعد جب ہم اخبار کی مالی دشواریاں کم یا ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تو مصطفی صادق صاحب کو ایک لمیٹڈکمپنی بنانے کی سوجھی۔ انہوں نے تجویز دی کہ کمپنی کے چار ڈائریکٹر ہوں گے۔ خود مصطفی صادق صاحب، تسنیم کے سابق چیف ایڈیٹر جناب سعید ملک اور تسنیم کے ہی سابق ایڈیٹر ارشاد احمد حقانی اوریہ خاکسار (جمیل اطہر)۔ میں نے یہ تجویز ماننے سے صاف انکار کردیا اور یہ کہاکہ جناب ارشاد احمد حقانی اور میرا حصہ برابر کیسے ہوسکتا ہے۔ ارشاد صاحب نے ایک وقت جسے ڈوبتی کشتی کا نام دیا تھا اگر وہ اب کچھ سنبھلنے کے قابل ہوئی ہے تو میری پوزیشن نئی کمپنی میں مصطفی صادق صاحب کے برابرہوگی۔ یہ تجویز کچھ نہ کچھ وقفوں سے زیر بحث آتی رہی مگر میں نے اپنا مؤقف برقرار رکھا۔ جس کے مجھے نقصانات بھی ہوئے کہ میں جب بھی ناراض ہوتا اور اپنا کام چھوڑ دیتا تو مصطفی صادق صاحب فوراً ارشاد صاحب کو فون کر دیتے اوروہ چند ہی گھنٹوں بعد قصور سے لاہور آکر میرا کام سنبھال لیتے کہ ارشاد صاحب بلاشبہ صحافت کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ لیکن اب تسنیم کا لیتھوچھپائی کا زمانہ گزر چکا تھا اورجدید طریقہ طباعت نے جہاں کچھ آسانیاں پیدا کی تھیں وہاں کچھ مشکلات نے بھی جنم لیا تھا ۔ ارشاد صاحب جس روز نائٹ شفٹ سنبھالتے کاپی کاایک ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہو جانامعمول تھا۔ نیوز ایجنٹوں کو بنڈل بروقت نہ پہنچتے، ان کی شکایت کا تانتا بند جاتا۔ بھکر میں وفاق کے ایک نیوز ایجنٹ محمد اکرم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی اوصاف سے نوازا تھا۔ وہ وفاق کی شہہ سرخی دیکھ کر ہی یہ اندازہ کرلیتے تھے کہ یہ سرخی میری لکھی ہوئی ہے یا کسی اور صاحب کی۔ جب ایک دو روز ایسا ہوتا تو وہ مصطفی صادق کو فون کرتے کیوں ناراض کر دیا آپ نے جمیل صاحب کو۔ ان کی ہر بات کی تان اس پر ٹوٹتی تھی۔ مصطفی صادق صاحب نے کئی بار ان سے کہا کہ جمیل صاحب آپ کو فون کرکے بتاتے ہیں کہ میں ان دنوںدفتر نہیں جارہا۔ اکرم صاحب کا ایک ہی جملہ ہوتا تھا۔ آپ اپنا اخبار نہیں پڑھتے۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ اخبار بے جان اور بے روح ہوگیا ہے اور پھر میری واپسی کا راستہ نکالنے میں بھی ارشاد حقانی صاحب کردار ادا کرتے تھے۔ مصطفی صادق صاحب اپنے خیالات و نظریات میں بہت پختہ تھے۔ انہیں جمہوریت سے سخت نفرت تھی۔ ارشاد حقانی صاحب جمہوریت کو ہی ملک کے تمام مسائل کی دواسمجھتے تھے۔ کبھی کبھی جب میں ناراض ہوتا اور اداریہ لکھنے سے انکار کر دیتا تو مصطفی صاحب پھر ارشاد حقانی صاحب کی طرف رجوع کرتے لیکن اشاعت سے قبل ان کی تحریر پر نظر ڈالنے کی ذمہ داری بھی مجھے ہی تفویض کی جاتی۔ مصطفی صادق صاحب اور ارشاد احمد حقانی صاحب کے نظریات میں بہت فرق تھا۔ ایک آدھ مرتبہ جب حقانی صاحب نے اپنے اداریوں میں جمہوریت کا ڈھول کچھ زیادہ ہی پیٹنا شروع کیا تو مصطفی صادق صاحب نے ان سے شکایت کرنے کے بجائے مجھے ہی کہاکہ میں ایسی تحریریں کیسے اشاعت کے لئے دے دیتا ہوں تو میں ان سے عرض کرتا کہ حقانی صاحب تسنیم میںآپ کے ایڈیٹر رہے ہیں۔جماعت اسلامی سے آپ سب لوگوںنے اکٹھے علیحدگی اختیار کی۔ اب اگر جمہوریت پر آپ دونوں کے راستے الگ الگ ہیںتو یا تو آپ ان سے اداریہ نہ لکھوائیں اوراگر مجھے یہ ذمہ داری دیں گے تو میں ان کی تحریر میں تو کوئی کانٹ چھانٹ نہیں کروں گا البتہ نیا اداریہ لکھ دوں گا جس میں آپ کے خیالات کی کسی حد تک ترجمانی ہوگی۔ ارشاد صاحب ماشاء اللہ بہت ہی ذہین انسان تھے۔ وہ قصور میں رہتے ہوئے وفاق کا اداریہ پڑھتے اور یہ فیصلہ کرلیتے کہ یہ اداریہ مصطفی صادق صاحب کالکھا ہوا ہے اور وہ لاہور میں ہوں گے لہٰذاوہ قصور سے لاہور کے لئے رخت سفر باندھ لیتے اور جب چٹان بلڈنگ میں وفاق کے دفتر میں پہنچتے تو مجھ سے دریافت کرتے کہ مصطفی صاحب کہاں ہیں، میں بتاتا وہ تو کراچی گئے ہوئے ہیں، تو سوال کرتے آج کا اداریہ کس نے لکھا، میں بڑی نیاز مندی سے ان کو بتاتا کہ یہ میرا لکھاہوا ہے۔ وہ حیرت میں ڈوب جاتے، کہتے کہ مجھے یقین نہیں آتاآج کے اداریہ میں تو ساری اصطلاحیں، استدلال اور ساری سوچ مصطفی صادق صاحب کی ہے۔ (ختم شد)
ارشاد احمد حقانی
May 18, 2025