مودی جی۔۔۔ ہن وی آ رام نئیں؟

May 18, 2025

ناصر نقوی۔۔۔ جمع تفریق

1971ء کی سازشی جیت کے بعد بھارتی حکمرانوں نے پتہ نہیں کیسے صبر کیا ورنہ انہیں اپنا ہمسایہ پاکستان بالکل اچھا نہیں لگتا، پہلے دولخت کرایا لیکن دل کو سکون پھر بھی نہیں ملا، وہ ہمیشہ ایک انجانے خوف میں مبتلا رہے ،،معاہدہ شملہ،، کے ذریعے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو 90۔ ہزار قیدیوں کی واپسی کرانے میں کامیاب ہو گئے مگر اس کے سوا پاک بھارت کوئی تنازعہ باہمی کوشش سے حل  نہیں ہو سکا کہ بھارتی حکمرانوں کا وادی کشمیر پر ناجائز قبضہ ان کی دکھتی رگ بلکہ گلے کی ہڈی ہے جبکہ اسی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے قرار دیا تھا اور 1948ء میں پہلے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کشمیریوں کی جدوجہد  آزادی اور جہاد کشمیر کی کارروائی سے خوف کھا کر اقوام متحدہ دوڑے چلے گئے تھے۔ انہوں نے اقوام عالم سے وعدہ کیا تھا کہ برصغیر میں بسنے والوں کی طرح کشمیریوں کو بھی حق خود ارادیت دیا جائے گا اور ان کے اجتماعی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا مستقل حل تلاش کر لیا جائے گا لیکن تب سے اب تک بھارتی حکمرانوں نے ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری سے اپنے وزیراعظم کا نہ صرف وعدہ نہیں نبھایا بلکہ سات دہائیوں سے کشمیریوں کا گلا دبانے، خون چوسنے اور انسانی حقوق غصب کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ آ زادی اور خود ارادیت کی  آواز بلند کرنے والے حریت پسندوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا، خواتین اور بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا اور ڈھٹائی سے نوجوان نسل کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر بھی انسانی حقوق اور انسانیت کے عالمی ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے رہے، پاکستان اور اس کے دوست ممالک نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی لہذا بھارتی حکمران مملکت پاکستان کے دشمن ،،نمبر ون،، بن گئے۔ کشمیریوں کی آواز کو خاموش کرانے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے سات لاکھ سے زیادہ فوج سے وادی کشمیر جنت نظیر کو جہنم بنا دیا مگر کشمیروں کا جذبہ حریت کم نہ کر سکے۔ کشمیری تین نسلوں کی قربانی دینے کے باوجود  آج بھی  اپنی دھرتی ماں پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی حکومتیں بھی کشمیریوں کو رام نہیں کر سکیں، اسی لیے پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ ہرگز نہیں ،سہ فریقی بحران ہے۔ جب تک بھارت، پاکستان اور کشمیری مذاکرات کی میز پر اکٹھے نہیں بیٹھیں گے بات نہیں بنے گی، بھارت اپنی دوغلی پالیسی میں کبھی بھی،، سہ فریقی،، بات چیت کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ ایسی صورتحال میں پاکستان اور کشمیری موقف ایک ہو جائے گا اور دونوں کا دباؤ بھارت کو برداشت کرنا پڑے گا، بس اسی اندیشے میں کبھی پاکستان سے مل کر کشمیریوں کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے اور کبھی پاکستان کو نظر انداز کر کے صرف کشمیری رہنماؤں سے مذاکرات کا دروازہ کھول دیتا ہے، حالانکہ یہ راز پوری دنیا جانتی ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نکل آئے تو خطے میں ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں اور نئی منزلیں ایسے نکلیں گی کہ باہمی تجارت اور دوستانہ تعلقات سے پاکستان اور بھارتی عوام کو بھی ریلیف ملے گا۔ مگر بھارتی حکمران تو مسلم دشمنی کو اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں۔ 50 سال بعد گجرات کے قصائی مودی جی کو اقتدار ملا تو انہوں نے آ ر۔ ایس۔ ایس کی محبت اور اقتدار کے نشے میں نئی تاریخ رقم کرنے کی ٹھان لی۔ انہوں نے حالات سے سبق نہیں سیکھا ، کشمیریوں کا حق آ ئینی تبدیلی سے مارنے کے بعد پاکستان سے بھی،، ایڈونچر،، کی منصوبہ بندی کر لی ،انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ بنگلہ دیش میں ان کی پٹھو وزیراعظم حسینہ واجد کو قوم نے دیس نکالا دے کر بھارت بھیج دیا اور پاکستان، بنگلہ دیش میں ایک مرتبہ پھر برادرانہ تعلقات کی بحالی دکھائی دے رہی ہے لہذا حالات کو پرکھنے کی کوشش کرتے۔ لیکن تیسرے اقتدار نے انہیں کچھ زیادہ ہی مغرور کر دیا ہے۔ چونکہ اس سال ستمبر میں آ ر۔ ایس۔ ایس کی صد سالہ تقریبات ہیں اس لیے کچھ نیا کرنے کی خواہش بڑھ گئی، تجارتی سلسلہ پہلے ہی منقطع تھا اب سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے آبی جارحیت کا فیصلہ کر لیا، پاکستان نے واشگاف الفاظ میں یاد دہانی کرائی کہ سندھ طاس معاہدہ کسی  صورت بھی یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا اور پانی ہماری،، ریڈ لائن، ہے لیکن مودی جی نے پہلگام ڈرامہ رچا کر سفارتی  آپریشن بھی کر دکھایا، پاکستان نے رد عمل میں فضائی حدود استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی دنوں میں بھارتی نقصانات میں اضافہ ہوا پھر بھی حسب عادت مکار دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا، پاکستان نے بتایا تھا کہ ہم پہل ہرگز نہیں کریں گے لیکن محض جواب ہی نہیں، بھرپور اور سخت جواب ملے گا۔ لہذا پاکستان نے سرحدی خلاف ورزی کیے بغیر ہی چند گھنٹوں میں فرانس کے منفرد طیارے رافیل ،روسی ایس۔ 400 اور اسرائیلی ڈرون مار گرا کر پیغام دے دیا کہ یہ صرف رد عمل ہے۔ کارروائی کا حق محفوظ ہے۔  مکار دشمن کو پھر بھی بات سمجھ میں نہیں  آ ئی۔اس نے پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈرون گردی سے اشتعال انگیزی شروع کر دی بلکہ پاکستان کے خلاف آ پریشن سندور کے نام پر جارحیت کا باقاعدہ  آ غاز ہو گیا، پھر بھی پاکستان نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اب وقت اور جگہ کا تعین خود کریں گے اور بھارتی چیلنج کو قبول کرتے ہیں، تین روز بھارتی کارروائی کا جائزہ لینے کے بعد آ پریشن ،،بنیان مرصوص،، سے صرف چند گھنٹوں میں فضائی، سرحدی اور سائبر حملے کر کے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا بلکہ امریکہ بہادر سے ریسکیو کی بھارت کو درخواست بھی کرنی پڑی اور نتیجہ،، سیز فائر،، نکلا۔ پھر بھارت کی جانب سے تین روزہ خاموشی دیکھنے کو ملی ہم سمجھے کہ مودی جی کو ہْن آرام اے۔لیکن جونہی وہ سکتے سے باہر آئے، انہیں ان کے نادان دوستوں نے بتایا کہ آ پ نے تو پاکستان سے جنگ جیت لی ہے لہذا انہوں نے ہندوؤں کے ہندوستان میں 10۔ روزہ جشن کا اعلان کر دیا۔ قوم سے مایوس کن خطاب بھی کیا بلکہ 23۔ مئی کو ایک اور خطاب کا وعدہ بھی کر لیا، جشن کی صورتحال یہ ہے کہ آ ر۔ایس۔ ایس اور بی۔ جے۔ پی  کے کارکنوں کے علاوہ پوری قوم حیرت زدہ ہے کہ بھلا یہ جشن کس بات کا منایا جا رہا ہے؟؟؟
  افواج پاکستان اور حکومت نے معرکہ حق کی کامرانی پر فخر ضرور کیا لیکن جیت کا کوئی اعلان کرنے کی بجائے صرف یہی پیغام دیا کہ ہم نے جواب دینے کا وعدہ پورا کر دیا ہے ہمارے جنگی عزائم نہیں ،نہ ہی ہم مودی کی طرح جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔ پھر بھی بھارت یاد رکھے کہ اگر دوبارہ جارحیت کا سوچا گیا تو اس سے بھی سخت جواب کے لیے تیار رہے۔ ہمارے سپہ سالار  جنرل حافظ عاصم منیر نے  آپریشن،، بنیان مرصوص،، کے بخیر و خوبی اختتام کا بھی اعلان کر دیا لیکن مکار دشمن جنگی جنونی مودی کا دعوی ہے کہ ان کا  آ پریشن سندور ابھی جاری ہے اس میں صرف وقتی وقفہ  آ یا ہے۔ یعنی مودی جی کو ،،ہن وی  آ رام نئیں،، ان کی بیماری کے لیے بڑا  آ پریشن ضروری ہے ،بھارت میں مودی کا ،، گودی میڈیا،، اپنی جھوٹی اور من گھڑت خبروں پر منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ میجر گورو آریا اور جنرل ریٹائرڈ بخشی اپنی بھاری بھرکم مونچھوں سمیت شرمندہ ہیں کیونکہ،، انڈین ایکسپیریس ،،کا دعوی ہے کہ پاکستان بڑی عسکری طاقت ہے اسے بھارت مرعوب نہیں کر سکتا، آپریشن سندور میں بھارت کو کسی پڑوسی ملک کی نہ حمایت مل سکی اور نہ ہی روس اور گلوبل ساؤتھ نے ان کی آ واز سنی جبکہ پاکستان نے موثر انداز میں اپنی  ایٹمی صلاحیت منوا لی، آ پریشن سندور جاری رکھنے سے نتیجہ نہیں بدلے گا جبکہ ٹائمز آ ف انڈیا لکھتا ہے کہ بھارت کو ناکام قیادت پر نظر ثانی کرنی ہوگی، سائبر حملے میں چھ ملکوں کے ہیکرز نے حصہ لیا ،عوامی سطح کی تنقید میں الزام لگایا جا رہا ہے کہ روس کی بے رخی سے بھارتی خارجہ پالیسی کی کمزوریاں بے نقاب ہوئیں اور امریکی ثالثی پر بھارتی قیادت مایوسی کا شکار ہے۔ بلکہ یہ بھی دعوی ہے کہ بھارت کے معاشی اور قومی وقار امریکی مفادات پر قربان ہو چکے ہیں، پھر بھی مودی جی جشن منا کر اپنی ہار کو جیت میں تبدیل کرنے کی تمنا میں پاگل ہوئے بیٹھے ہیں، دراصل کم ظرف اور کمینہ دشمن مودی چائے کے ڈھابے سے اٹھ کر گجرات میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل کر ہندو انتہا پسندی میں بھارتی راج دھانی کا مکین بنا ہے تو وہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کا بھگوان اسے خواہ جس قدر بلند رتبہ عطا کر دے اس کی سوچ،، کمی کمین،، والی ہی ہے۔ اسی لیے مودی کے بھاشن پر وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں چپ رہنے کا مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ بتا دیا ہے کہ ہم جنگ اور مذاکرات دونوں کے لیے تیار ہیں۔ آپریشن ،،بنیان مرصوص،، 1971ء کا بدلہ ہے۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ پاک فوج نے چند گھنٹوں میں مکار دشمن کی جارحیت ناکام بنائی، ہمارے تینوں سپہ سالار قوم کی  آنکھوں کا تارا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تجارت سے پہلے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ دوسری جانب صدر عالمی بینک بھارتی نثراد سردار اجے۔ بنگا نے دنیا کو بتا دیا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی کوئی گنجائش نہیں، دنیا پاکستان کے ناقابل تسخیر ہونے کی گواہی دے رہی ہے لیکن مودی جی اپنا،، ترنگا ،،لے کر بڑی، ترنگ، میں ہیں۔ ایسے میں ان کا نفسیاتی علاج صرف جنرل عاصم منیر اپنی ایک فون کال سے کر سکتے ہیں کہ پوچھ لیں ،،مودی جی۔۔ ہن وی  آ رام نئیں؟"۔

مزیدخبریں