علامہ عبد الستار عاصم
چند دہائیاں قبل جب جدید ذرائعِ مواصلات عام نہ تھے، خط و کتابت انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے پْراثر اور معتبر وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو خط لکھ کر اپنے دل کی باتیں، یادیں، تجربات اور مشاہدات ایک دوسرے تک پہنچاتے۔ یہ خطوط صرف نجی بات چیت نہ ہوتے بلکہ ان میں وقت کی نبض، تہذیب کی جھلک اور افراد کی شخصیت پوشیدہ ہوتی۔ یہ تہذیبی ورثے کے محافظ، ادبی رشتوں کے ستون اور ایک زمانے کی ثقافتی تصویر کشی کرتے۔ آج جب ایسے خطوط ہمیں دستیاب ہوتے ہیں، تو وہ ماضی سے ایک زندہ ربط بن کر سامنے آتے ہیں۔
رام لعل اردو ادب کے ممتاز افسانہ نگار، ادیب اور باکمال لکھاری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے افسانے انسانی نفسیات، معاشرتی تضادات، اور تہذیبی اقدار کے عکاس ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد اگرچہ وہ بھارت منتقل ہو گئے، لیکن ان کے دل کی ڈور ہمیشہ میانوالی سے بندھی رہی۔ وہ شہر جہاں ان کا بچپن اور چڑھتی جوانی پروان چڑھی، ہمیشہ ان کے تخیل میں زندہ رہا۔ یہی جذبہ ان کے خطوط میں بارہا ابھرتا ہے، جو انہوں نے میانوالی میں بسنے والے اپنے قریبی احباب کو وقتاً فوقتاً لکھے۔
ان خطوط میں ایک نام جسے مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہ پروفیسر محمد سلیم احسن کا ہے۔ پروفیسر صاحب محض ایک دوست نہیں بلکہ خود بھی ادب کی دنیا میں ایک معتبر ہیں۔ وہ اردو اور سرائیکی کے ممتاز لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان کے ان گنے چنے شعرا میں شامل ہیں جنہیں صدارتی ایوارڈ جیسے قومی اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کی شاعری میں سرائیکی خطے کی خوشبو، دکھ سکھ، محبت، ادب اور فکری عمق شامل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رام لعل کے یہ خطوط صرف یادداشتیں نہیں بلکہ تاریخ و تہذیب کا بیانیہ ہیں۔ ان میں میانوالی کی تہذیب، ادبی محفلیں، ثقافتی رنگ، اور وہاں کی شخصیات کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ رام لعل کے اندازِ تحریر میں جو سادگی، مٹھاس اور جذبات کی شدت ہے، وہ ان خطوط کو محض ذاتی مکالمے کے بجائے ایک ادبی اور تاریخی دستاویز کا درجہ دے دیتی ہے۔
ان نادر و نایاب خطوط کو محفوظ کر کے کتابی شکل دینا ایک بہت بڑی خدمت ہے جو محمد منشا خان جیسے صاحبِ ذوق، علم دوست اور صوفیانہ طبیعت کے حامل ادیب نے سرانجام دی۔ میانوالی میں رہنے والے محترم محمد منشا خان صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ نہ صرف ایک محقق، مرتب، مؤرخ اور مصنف ہیں بلکہ ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ان کی صوفیانہ طبیعت ہے۔ ان کے اندر وہ سادگی، اور فکری وسعت پائی جاتی ہے جو تصوف کا خاصہ ہے۔ تصوف سے ان کی قلبی وابستگی ان کے مزاج، تحریر اور طرزِ زندگی میں جھلکتی ہے۔ وہ خاموشی اور اخلاص کے ساتھ علم و ادب کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ اب تک ان کی بیس سے زائد کتب منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر تحقیقی کام موجود ہے، تاہم میانوالی کے حوالے سے جو مستقل اور اہم علمی وابستگی انہوں نے اختیار کی ہے، وہ واقعی لائقِ تحسین ہے۔ وہ میانوالی کی ادبی تاریخ، شخصیات اور تہذیبی ورثے کو محفوظ کرنے میں جس محنت اور صدق سے مصروف ہیں، وہ اس خطے کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ان کی تحقیق میں نہ صرف معلومات کا خزانہ موجود ہے بلکہ ایک روحانی ربط بھی جھلکتا ہے، جو انہیں ایک عام محقق سے ممتاز کرتا ہے۔
رام لعل کے خطوط پر ان کا لکھا گیا مفصل مقدمہ محض ایک ادبی تجزیہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی و تہذیبی مکالمہ ہے۔ وہ قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان خطوط میں صرف ایک شخص کی یادیں نہیں، بلکہ ایک بکھرتی تہذیب، ایک جدا ہوتی نسل اور ایک خطے کی روح سانس لیتی ہے۔ انہوں نے یہ کام صرف مرتب کے طور پر نہیں کیا بلکہ ایک وفادار بیٹے کی طرح جسے اپنی زمین، اپنے لوگوں اور اپنی تاریخ سے محبت ہو۔ یہ کتاب صرف خطوط سے دلچسپی رکھنے والوں اور رام لعل پر تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید نہیں بلکہ ہر اس قاری کے لیے قیمتی ہے جو ماضی کے بچھڑے لمحوں کو محسوس کرنا چاہتا ہے۔ یہ خطوط بتاتے ہیں کہ دوری جسمانی ہو سکتی ہے، مگر جذباتی رشتے ہمیشہ دل سے بندھے رہتے ہیں۔ اور جب کوئی محقق ان بکھری یادوں کو اکٹھا کرتا ہے تو وہ صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک زندہ تعلق دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ محترم محمد منشا خان کی اس خدمت کو صرف ادبی نہیں بلکہ ہر سطح پر سراہا جانا چاہیے۔ وہ میانوالی کی مٹی کے بیٹے ہیں، جو اپنی قلمی کاوشوں کے ذریعے اس خطے کی روح کو آنے والی نسلوں تک منتقل کر رہے ہیں۔