تحریر: سردار عبدالخالق وصی
برصغیر کی تاریخ میں قیام پاکستان ایک نظریاتی اور روحانی معجزہ تھا، جو نہ صرف مسلمانوں کے جداگانہ تشخص پر مبنی تھا بلکہ پرامن بقائے باہمی، خودمختاری، جمہوریت، انسانی وقار اور خوشحالی کے خواب پر استوار تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور علامہ اقبال کے فکری افق نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کے حصول پر متحد کیا۔ پاکستان کبھی بھی خطے میں بالادستی کا خواہاں نہ تھا، بلکہ وہ خطے کے ممالک کے ساتھ باوقار اور خوشگوار تعلقات کا داعی رہا۔ تاہم، اس کے مقابل بھارت نے قیام پاکستان کو ابتدا ہی سے دل سے تسلیم نہ کیا۔
تقسیم ہند کا جو اصول طے پایا، اس کے مطابق تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ جغرافیائی محلِ وقوع اور عوامی خواہشات کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کریں۔ ریاست جوناگڑھ، حیدرآباد دکن اور کشمیر — ان تینوں ریاستوں کے عوام کی خواہش پاکستان سے الحاق کی تھی۔ جونا گڑھ اور حیدرآباد نے باقاعدہ الحاق کا اعلان بھی کر دیا، لیکن بھارت نے ان پر طاقت کے زور سے قبضہ کیا۔ کشمیر، جس کی مسلم اکثریت نے پاکستان سے وابستگی کا اعلان کیا تھا، اس پر بھی بھارت نے جارحیت کے ذریعے قبضہ کر لیا اور یوں خطے کے سب سے دیرینہ تنازع نے جنم لیا جو گزشتہ 78 سالوں سے حل طلب چلا آ رھا ھے اگر اسے حل نہ کیا گیا تو یہ آتش فشان نہ جانے کب دنیا بھر کے امن کو تہہ و بالا کردے یہ قضیہ پاکستان بھارت کے مابین سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مسلمہ قراردادوں کی روشنی میں دیڑھ کروڑ سے زائد کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ھے جس کی گارنٹی اقوام متحدہ نے دی ھے۔
بھارت کی معاندانہ پالیسی کا ایک اور مظہر 1971 کی جنگ تھی، جب اس نے مکتی باہنی کی سرپرستی کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد اندرا گاندھی نے تکبر سے کہا، ’’ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔‘‘ لیکن تاریخ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ نظریات دبائے جا سکتے ہیں نہ مٹائے سور نہ خلیج آپ میں ڈبوئے جاسکتے ھیں۔ اس سانحے کے باوجود پاکستان نے اپنی وحدت اور خودداری کو مزید تقویت دی۔ بھارت نے 1974 میں اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کرکے پاکستان کو دفاعی طور پر دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ مگر پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایک پختہ اور تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے ایٹمی صلاحیت کے حصول کا راستہ اختیار کیا۔ اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ھم گھاس کھا لیں گے مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنائیں گے اسکی سزا بھٹو نے جان کی قربانی دے کر قبول کی لیکن پاکستان اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ھٹا۔
ایٹمی پروگرام کی تکمیل تک پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا، لیکن بالآخر 1998 میں وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چاغی بلوچستان کے پہاڑوں میں پانچ کے مقابلے میں چھہ دھماکوں سے کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان نہ صرف دفاعی خودمختاری رکھتا ہے بلکہ اسے برقرار رکھنے کا عزم بھی۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کے غرور کو خاک میں ملا دیا گیا، اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال ہوا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان نے نہ صرف ایٹمی طاقت حاصل کی، بلکہ چین، سعودی عرب اور ترکی جیسے دوست ممالک سے دفاعی شراکت داری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا، جس کا اثر آج کی کامیابیوں میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔
حالیہ کشیدگی کا آغاز بھارت کی جانب سے ’’سندوری آپریشن‘‘ کے نام سے ایک جارحانہ فوجی منصوبے سے ہوا۔ اس کارروائی کا مقصد پاکستان کو دفاعی اور سفارتی سطح پر دباؤ میں لانا، اور بھارتی عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹانا تھا۔ بھارت نے پہلگام میں ہونے والے ایک مشتبہ واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر بلاجواز الزامات عائد کیے، حالانکہ پاکستان نے واقعے کی غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش بھی کی۔ اس کے باوجود بھارت نے اشتعال انگیزی کا راستہ اپنایا، جس کا پاکستان نے انتہائی پیشہ ورانہ، سنجیدہ اور موثر جواب "بنیان مرصوص" اوپریشن سے دیا۔
پاکستان ایئر فورس نے انتہائی قلیل وقت میں فضائی برتری قائم کر کے دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ پاک فوج نے لائن آف کنٹرول کے پار بھارتی رسد گاہوں اور تنصیبات کو نشانہ بنا کر دشمن کی جنگی حکمت عملی کو درہم برہم کیا، جبکہ شہری علاقوں اور انسانی جانوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ضبط و تحمل کا اعلیٰ مظاہرہ کیا گیا۔
اس پوری کارروائی میں پاکستان کی سیاسی، عسکری اور سفارتی قیادت نے بھرپور ہم آہنگی کا ثبوت دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کو متحد رکھنے کے ساتھ عالمی برادری کو پاکستان کے مؤقف سے باخبر رکھا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے عالمی دارالحکومتوں — بیجنگ، ریاض، انقرہ، لندن اور واشنگٹن — میں پاکستان کا مقدمہ دانشمندی سے پیش کیا۔ انہوں نے سفارتی مہارت سے دنیا کو باور کروایا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے، جو امن چاہتی ہے لیکن اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔
دوسری جانب، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے جس تدبر، عسکری حکمت عملی اور اصولی ضبط کا مظاہرہ کیا، وہ پاکستان کی نئی دفاعی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستانی فوج نے صرف اپنی قوت دکھانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دشمن کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوگا۔ انہوں نے عسکری طاقت کو نظریاتی بصیرت اور قومی وقار کے ساتھ جوڑ کر پاکستان کو نہ صرف دفاعی محاذ پر مضبوط کیا بلکہ سفارتی محاذ پر بھی نمایاں فتح دلائی۔
بھارت کی اندرونی حالت بھی مودی سرکار کی جنگجویانہ پالیسیوں کا پول کھول چکی ہے۔ بھارت کی اقلیتیں، خصوصاً مسلمان، دلت، اور سکھ، شدید عدم تحفظ اور ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ حالیہ کشیدگی میں سکھ فوجی یونٹوں کے کئی ارکان کی جانب سے لڑائی سے انکار کی خبریں منظرعام پر آئیں، جو بھارتی افواج کے اندرونی انتشار کا ثبوت ہیں۔ مودی کی ہندوتوا سوچ نہ صرف بھارت کے لیے خطرہ بن چکی ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہی ہے۔
اس تمام صورتحال میں امریکہ کو بھی قدم اٹھانا پڑا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی سطح پر مداخلت کر کے بھارت کو شکست فاش سے بچانے اور عالمی سطح پر تنہا ھونے سے بچانے کے لئے انتباہ دیا کہ اگر اس نے کشیدگی کو ہوا دی تو سفارتی اور تجارتی نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اس کے برعکس، پاکستان کے تحمل اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کو سراہا گیا۔ پاکستان کی عسکری اور سفارتی حکمت عملی نے ایک بار پھر دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ نہ صرف اپنے دفاع کے لیے مکمل تیار ہے، بلکہ خطے میں امن کے لیے بھی پر عزم ہے۔
یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرے۔ کشمیری عوام کوئی محض سیاسی pawn نہیں، بلکہ ایک زندہ قوم ہیں، جنہیں جمہوریت، وقار اور انصاف کا حق ہے۔
پاکستان کی اس حالیہ فتح کا جوہر صرف جنگ بندی میں نہیں، بلکہ اپنی خودمختاری، نظریے اور قومی وحدت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے میں ہے۔ پاکستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نہ تو اشتعال میں آ کر غلط قدم اٹھاتا ہے، نہ ہی دباؤ میں آ کر پیچھے ہٹتا ہے۔ بلکہ اپنے اصولوں، طاقت، اور اخلاقی برتری سے دشمن کے ارادے خاک میں ملا دیتا ہے۔
پاکستان کا پیغام آج بھی وہی ہے جو قائد اعظم نے دیا تھا:
"ہم امن چاہتے ہیں، لیکن عزت کے ساتھ۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن خودداری پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔"
یہی پیغام پاکستان کے مدبر و مؤقر راھنما محمد نواز شریف،وزیراعظم محمد شہباز شریف،وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور ارمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور افواج پاکستان کا بھی ھے کہ اب بھارت کے خلاف صبر کا پیمانہ لبریز ھے اب اینٹ کا جواب پتھر سے ھی ملیگا