وطن کے نگہبانوں کو سلام
دیکھتے ہی دیکھتے پچھلے چند دنوں میں نظریاتی اور سیاسی مخالفت خطرناک درجے تک انتہا پسندی کی شکل اختیار کر چکی ھے . معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ماضی کی عطا کردہ انتہا پسندی جیسی ہے جس میںصبر، ضبط اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔انہتا پسندی کو بیرونی قوتوں نے خوب استعمال کیا۔ اس شدت پسند کی اس لہر کو ملکی سالمیت اور عسکری اداروں کے خلاف استعمال کی کوشش کی گئی۔ پاک فوج نے دنیا میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا ہے ہے ایران عراق شام لبنان سے کہیں زیادہ عزت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ہیں ہم اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ہماری مسلح افواج جینان عالم میں نامور ھے فوج کی قدر برما کے مسلمانوں سے پوچھو جن پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے ۔کیا پاکستانی فوج کا سیاست میں کوئی کردار ہے یقینا نہیں! جمہوریت کی ریل کو سنبھالنا پارلیمنٹ کا کام ہے ملک میں اندرونی اور بیرونی خطرات کو سنبھالنا فوج کا کام ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ فوج کو نہ جوڑا جائے نہ ہی کسی بیرونی ایجنڈے پر چل کے ملک میں بدامنی کو فروغ دیا جائے۔ فوجی ملک اور قوم کی خاطر اپنی جان دینے کا حلف اٹھاتے ہیں اس لیے پاک فوج بطور ریاستی ادارے میں سب سے زیادہ قابل احترام ہے … یہ درست ہے کہ قومی ایکشن پلان پر سنجیدگی عمل درآمدکرانے کاوقت آچکاہے پاک فوج کی قربانیوں سے بلوچستان میں امن قائم ہوا اسے رائیگان نہیں جانے دیں گئے۔ جامعہ کراچی میں چینی شہریوں پر خودکش حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کامطالبہ زور پکڑ چکاہے۔ نواز شریف دور میں نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا تھا جس کے کچھ حصوں پر عمل درآمد کرنیکے باعث ملک میں امن برقرار ہوا تھا، کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کا دوبارہ جائزہ لیا جارہا ہے جس کے تحت نیکٹا کا اجلاس فوری بلائے جانیکا مطالبہ زورپکڑ چکاہے ۔ اہل پاکستان کی بدقسمتی رہی ھے کہ قائداعظم کے بعد کوئی مخلص لیڈر میسر نہیں آیا پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کوششیں کافی عرصے سے جاری ہیں پاکستان دشمن قوتیں شوشل میڈیاکے زریعے ٹارگٹ کے حصول کیلئے منظم ہیں جبکہ ہم کسی ’’کرامت‘‘ کے انتظارمیں ہیں۔ سیاست دانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہاں خود کش بم بارشاری بلوچ جیسی اسکالرہی پیدا ہوتی رہیں گی , پاکستان کے کئی تعلیمی اداروں میں آپریشن کلین اپ کی بھی ضرورت ہے ورنہ کراچی جیسے واقعات رونماہوتے رہیںگے ۔پاکستان بننے کے فورا بعد قائد اعظمؒ نے بلوچستان کادورہ کرکے بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی عملی کوشش کی۔بلوچ روایت میں خواتین کو منفرد مقام حاصل ہے جہاں عورت کو عزت وناموس سمھجا جاتاہے اور اسے گھر کی چادیواری میں بلند مرتبہ حاصل ہے ایسی کوئی وجہ نہیں کہ بلوچ روایتں دم توڑ چکی ہیں لیکن (شاران بلوچ) دہشت پسند کے خود کش حملے نے کئی سولات کوجنم دیاہے ۔24 اپریل 2022 کی ایک پوسٹ میں، اس نے لکھا "میری زمین نے مجھے دو چیزیں سکھائی ہیں: محبت اور مزاحمت۔"2 مارچ 2022 کو اس نے جمال بلوچ کی ایک پوسٹ کو ری ٹویٹ کیا جس میں لکھا تھا: "مزاحمت ہماری ثقافت ہے اگر آپ اسے منانا چاہتے ہیں تو مزاحمت کریں۔"23 دسمبر 2021 کو، اس نے کیپشن کے ساتھ فتح کا نشان پوسٹ کیا: "میں ایسی کہانی نہیں ہوں جو ہمیشہ رہے گی اس میں اپنا کردار ادا کروں گی اور باہر نکلوں گی۔"دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے اپریل میں کم از کم دو بار اس پوسٹ کو شیئر کیا تھا۔ اللہ کریم میرے وطن پر رحم کرے آمین