
بہت دن ہوئے ٹیسٹ کرکٹر اشرف علی نے ایک واقعہ سنایا کہنے لگے کسی بڑے نے نصیحت کی کہ کامیاب ہونا ہے تو قذافی سٹیڈیم کے چکر لگایا کرو یہ سن کر ہم نے گراؤنڈ کے چکر لگانے شروع کر دیے، برسوں بعد نصیحت کرنے والوں نے پوچھا وہیں کے وہیں ہو کیا سٹیڈیم کے چکر نہیں لگاتے تھے، جواب دیا گراؤنڈ میں بہت چکر لگائے تو جواب ملا چکر قذافی سٹیڈیم کے دفاتر میں لگانے کا کہا تھا بس پھر اس کے بعد ہر طرف قہقہے تھے۔ خود اشرف علی کے لیے بھی یہ واقعہ سناتے ہوئے ہنسی روکنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر ایک دو کرکٹرز ساتھ ہوں تو پھر اس جیسے واقعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے موجود لوگ آپ بیتی سنانا شروع کرتے ہیں تو ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہونا معمول کی بات ہے۔ گذشتہ دنوں ٹیسٹ کرکٹر یاسر عرفات نے بتایا کہ والد صاحب نے ہمیشہ کہا کہ کامیابی کے لیے کبھی دفتروں کے چکر نہیں لگانے بلک گراؤنڈ کے چکروں پر زور دینا ہے۔ میں نے ان چکروں کے اتنے واقعات سنے ہیں کہ کوئی کام نہ بھی ہو تو کسی بھی موسم میں سٹیڈیم کے چکر لگانے کا اپنا ہی مزہ ہے ویسے بھی چکر لگاتے لگاتے کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے۔
حسب عادت گذشتہ روز بھی سٹیڈیم لگا موسم گرم تھا، چوٹی سے ایڑی پسینہ اس موسم کی خاصیت ہے نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر سے تھوڑا آگے بورڈ کا ایک ملازم فائلیں اٹھائے جا رہا تھا میں نے پوچھا خیریت ہے بہت جلدی میں ہو کہنے لگا حافظ صاحب کام کرنا اور کام سے "صاحب" کو خوش کرنا دو مختلف چیزیں ہیں جلدی جلدی اس لیے جا رہا ہوں کہ باس کو متاثر کر سکوں اور انہیں بتا سکوں کہ دوسروں سے کتنا مختلف کام کرتا ہوں، مزید نوکری پکی کرنے کے لیے سب افسران کو ایک ایک کام گن کر بتاتا رہتا ہوں۔ ایسا نہ کرتا تو کب کا گھر بیٹھا ہوتا۔ چلیں اب جانے دیں دیر ہو گئی باس ناراض بھی ہو سکتا ہے۔
میں تھوڑا آگے چلا تو نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر سے ایک شخص تیزی سے نکلا اور پریشانی میں بورڈ کی طرف جا رہا تھا اسے بھی روکا اور پوچھا خیریت تو ہے اتنے پریشان کیوں ہو، کہنے لگا بہت جلدی میں ہوں ابھی ابھی دو تین لوگوں نے مل کر ایک کام مکمل کیا ہے سب سے زیادہ کام میں نے کیا ہے اور میں باس کو سب سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ کام میں نے کیا ہے۔ کامیابی کے لیے سب سے آسان نسخہ یہی ہے۔
یہ نوجوان بھی بورڈ آفس کی طرف چلا گیا۔ میں وہی رک کر سوچنے لگا کہ یہ کام کیسے چل رہا ہے اتنے میں موبائل فون کی گھنٹی بجی ایک باخبر دوست نے کہا جانتے ہیں ان دنوں کرکٹ بورڈ میں کام کیسے چل رہا ہے۔ میں نے کہا بہت اچھا چل رہا ہے، آسٹریلین مٹی آئی ہوئی ہے، ویسٹ انڈیز کی ٹیم آ رہی ہے، سابق کھلاڑیوں کے لیے بھی بورڈ چیئرمین کچھ کرنا چاہتے ہیں، نوجوان کھلاڑیوں پر بھی سرمایہ خرچ کرنا چاہتے ہیں، بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن "سکپر" کے طے کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کچھ نہیں کرنا چاہتے اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں میڈیا کو بھی ساتھ ساتھ بتا رہے ہیں، کہیں ٹویٹ کے ذریعے، کبھی کرکٹ بورڈ کا میڈیا ڈیپارٹمنٹ معلومات فراہم کرتا ہے تو کبھی کسی سے ملاقات کر کے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے جواب آیا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بورڈ افسران یا بورڈ کی اعلیٰ ترین شخصیت صرف میڈیا کو ہی اپنے کارناموں کی تفصیلات فراہم کر رہے ہیں تو یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ یہ ہے کہ بورڈ کے کئی افسران بااثر لوگوں کو اپنی کامیابیوں کی تفصیلات روزانہ کی بنیاد پر فراہم کرتے ہیں۔ اب یہ خبر نکالنا آپکی ذمہ داری ہے کون کون یہ کام کرتا ہے، کہیں بورڈ کی اعلیٰ ترین شخصیت بھی روزمرہ کے معمولات کہیں پہنچاتی ہے یا نہیں۔ چلیں آپ خبر نکالیں دوبارہ بات ہوتی ہے۔ فون بند ہوا تو میں سوچنے لگا یہاں صرف کمزور ملازمین ہی سب کچھ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے یہاں تو حالات ہی بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بورڈ ملازمین جانتے ہیں کہ "کارروائی" کیسے ڈالنی ہے۔ جب انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ ان کا افسر اپنے افسر کو کیسے خوش رکھتا ہے تو جو وہ دیکھتے ہیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے پی ایس ایل منافع کی خبریں، بڑے بڑے معاہدوں کی خبریں، ٹونٹی ٹونٹی کے مختلف ٹورنامنٹس کی خبریں کیا سب کچھ کسی کو دکھانے کے لیے تو نہیں ہے۔