
خاں صاحب کی جنگ آزادی آخری مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ مختلف شہروں میں جلسے کر رہے ہیں۔ دو جلسے اور ہیں جس کے بعد فیصلہ کن چڑھائی کی تاریخ کا اعلان ہو گا۔ اعلان ہوتے ہی ملک بھر سے مجاہدین آزادی کے لشکر پانی پت کے میدان، میرا مطلب ہے ڈی چوک کا رخ کریں گے جہاں پانی پت کی دوسری بڑی اور فیصلہ کن جنگ لڑی گئی تھی۔ بظاہر اس جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا لیکن دو برس بعد ہی پانامہ لیکس کا زلزلہ آیا اور نواز شریف کی حکومت ایک برس تک ڈولتے رہنے کے بعد 2018ء کے صاف شفاف انتخابات میں زمین بوس ہو گئی تھی۔
گھبرائی ہوئی نظر آنے والی حکومت ہفتہ دس دن پہلے تک یہ اعلان کر رہی تھی کہ کسی کو اسلام آباد آنے نہیں دیں گے، آزادی کے متوالوں کو ان کے شہروں ہی میں روک دیں گے لیکن اب وہ خاموش ہے، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کوئی ایسا بیان نہیں دے رہے جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ ڈی چوک آباد ہو کر رہے گا۔ اگرچہ خاں صاحب کے بعض بہی خواہ یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ ایسا ہونے کی نوتب اس لئے نہیں آئے گی کہ حکومت پہلے ہی سرنڈر کر دے گی، اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی تاریخ دے دے گی اور یوں خاں صاحب پھر سے حکومت میں آ جائیں گے۔ یہ موخر الذکر دعویٰ کچھ حیران کن سا ہے۔ بظاہر اس بار الیکشن میں آر ٹی سسٹم بٹھانے کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہے۔ پھر ’’جیت‘‘ کیسے ملے گی۔ پی ٹی آئی کا ایک جلوس یاد آ رہا ہے۔ پولیس نے ہلکا پھلکا لاٹھی چارج کر دیا۔ آزادی کا ایک مجاہد تقریباً روتے ہوئے فریاد کرتا پایا گیا کہ پولیس لاٹھیاں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے
……………
خاں صاحب ساڑھے تین سال تک اپنے تئیں ریاست مدینہ بنانے میں لگے رہے۔ سچ پوچھئے تو بنانے میں نہیں، بنانے کا عزم کرنے میں۔ لیکن اس عزم کو عمل میں بدلنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی ان کی حکومت ’’غیر ملکی سازش‘‘ کے تحت ختم کر دی گئی اور حکومت ختم ہوتے ہی خاں صاحب کو علم ہوا کہ ریاست مدینہ بنانے سے پہلے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اب آزادی کی جنگ درپیش ہے۔ یہ ملے گی، تب ریاست مدینہ بنانے کی بابت سوچا جا سکتا ہے۔
لگتا کچھ ایسے ہے کہ یہ بھی کوئی ’’غیر ملکی سازش‘‘ تھی جس کی وجہ سے خاں صاحب کو ساڑھے تین سال تک پتہ ہی نہ چلنے دیا گیا کہ ہم غلام ہیں۔ پتہ بروقت چل جاتا تو ان ساڑھے تین برسوں میں آزادی حاصل کی جا سکتی تھی۔ غیر ملکی سازشوں کا برا ہو، انہوں نے ریاست مدینہ کے سفر میں ساڑھے تین سال ضائع کر دئیے۔
……………
جنگ آزادی کے مجاہدین میں جوش و جذبہ کی کمی تو کبھی تھی ہی نہیں، اب اس میں ایک نیا عنصر ’’رقّت‘‘ کا شامل ہو گیا ہے۔ یہ عنصر اس انکشاف کے بعد شامل ہوا جو خود خاں صاحب نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بعض ملکی اور غیر ملکی طاقتیں ان کی جان لینے کا منصوبہ بنا چکی ہیں۔ انہوں نے اس منصوبے کی تفصیلات، بقول ان کے ایک وڈیوکیسٹ میں ریکارڈ کرا دی ہیں۔
وڈیو کیسٹ دو عشرے پہلے ہوا کرتے تھے۔ کیا یہ سازش دو عشرے پہلے ہوئی تھی جس کا پتہ اب چلا ہے۔ شاید وہ وڈیو کلپ کہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس میں سازشیوں کے نام بھی بتا رہے ہیں۔ خاں صاحب نے جب جلسہ عام میں عوام سے اپیل کی کہ سازش کامیاب ہونے کی صورت میں وہ انہیں یعنی خان صاحب کو انصاف دلائیں۔ یہ سن کر سامعین پر جو رقت طاری ہوئی، رقّت کی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ محترمہ بے نظیر شہید نے اپنے قتل کی سازش کا جب انکشاف کیا تھا تو سازشیوں کے نام بھی کھل کر بتا دئیے تھے۔ خاں صاحب نے بہرحال ایسا نہیں کہا، پردہ رکھا اور بقول ان کے یہ پردہ بعد میں اٹھے گا۔
خاں صاحب نے اشارہ دیا کہ یہ سازش کھانے میں ایسا زہر ملا کر کی جائے گی جو ہارٹ اٹیک کا باعث بنتا ہے۔ حکومت نے سازش کا انکشاف ہونے کے بعد خاں صاحب کی سکیورٹی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے حالانکہ ضرورت کھانا چیک کرنے کے سٹاف میں اضافے کی تھی۔
اس سازش کو ناکام بنانا بہت آسان ہے۔ ایک تو یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ خاں صاحب بھوک ہڑتال کر دیں اور تب تک یہ بھوک ہڑتال جاری رکھیں جب تک سازشی اپنی سازش واپس نہ لے لیں، دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ خاں صاحب اپنے جاں نثاروں کا ایک بڑا دستہ بنائیں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سوشل میڈیا پر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہم خاں صاحب کے لیے اپنی اور اپنے بچوں کی جان دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
ہر کھانا اس دستے کے لوگ چکھیں۔ کچھ نہ ہو تو خاں صاحب تناول فرمائیں، کچھ ہو جائے تو نیا کھانا بنوائیں اور اگلے جاں نثار کو جاں نثاری کی سعادت عطا فرمائیں۔
خاں صاحب کو یقین ہے کہ یہ ’’ہمدردی کارڈ‘‘ انہیں نیا الیکشن آر ٹی سسٹم والے بکھیڑے کے بغیر ہی جتوا دے گا۔ اس دوران ’’نیوٹرل‘‘ طاقتیں خاں صاحب کے مطالبے کی حمایت پر آمادہ نظر آتی ہیں اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے گھبرائی ہوئی حکومت کی گھبراہٹ میں یہ مطالبہ کر کے اضافہ کر دیا ہے کہ خاں صاحب کی بات مان لو اسمبلیاں توڑو، الیکشن کرائو اور گھر جائو۔
نیوٹرل حضرات کی اس نیوٹریلیٹی نے بظاہر خاں صاحب کیلئے جنگ آزادی کی کٹھن راہوں کو سہل کر دیا ہے لیکن پس منظر اور پیش منظر میں بہت سے عوامل اور حقائق اور بھی ہیں جو شاید اگلے واضح ہو جائیں جو بھی ہو، ایسے یا ویسے منتقل کے اشارے اچھے نہیں ہیں۔ ہم وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں ہم 1970ء اور 1971ء کے درمیانی عرصے میں کبھی کھڑے تھے۔ واقعات نہیں، کیفیت کے اعتبار سے!