عوام وچاری کیہ کرے، ٹھنڈا پانی پی مرے؟
سیاست کامرکز و محورعوام ہوتی ہے، ہمارے یہاں سیاست اور سیاست کے ذریعے جمہوریت کا مفہوم یکسر مختلف ہے۔ کہاوت ہے کہ ’’ضروری نہیں جس نے شراب پی رکھی ہو وہ نشے میں بھی ہو، مگر یہ ممکن نہیں کہ کوئی اقتدار میں ہو اور نشئے میں نہ ہو‘‘ہمارے یہاںسیاست اقتدار کے نشئے میں دھت ہے۔کہنا یہ چاہیے کہ پاکستان کی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے،کہ جو کچھ سامنے ہے، وہ حقیقت نہیںاور جو حقیقت ہے وہ نظر نہیں آتی یا آنے نہیں دی جاتی۔ظاہر ہے اس میں سب سے بڑا رول میڈیا کا ہے، میڈیا میں بھی مین سٹیم میڈیا حقیقت کو چھپانے اور جھوٹ پھیلانے میں برابر کا شریک ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ میڈیا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانے کاہنر جانتا ہے، پاکستانی سیاست میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ فی الوقت ہر کوئی ذاتی مفاد کا اسیرہے، اس میں سیاسی کارکنان سے لے کر سوکالڈ دانشور بھی مفاد کے اسیر ہیں، مفاد اس قدر غالب ہے کہ ہر کوئی مفاد کی عینک سے دیکھتا ہے ۔جس کسی کا جس سیاسی پارٹی سے مفاد وابستہ ہے، اس کے نزدیک وہ حق پر اورمخالفین غدارہیں۔یوں تو پاکستان بننے سے لے کر اب تک کی ملکی تاریخ اس حد تک شرمناک ہے کہ بعض اوقات شرمندگی دامن گیر ہوتی ہے کہ ہم کس ملک کے باشندے ہیں؟
پاکستانی سیاست میں دو چیزیں بہت ہی تکلیف دہ ہیں ، ایک یہ کہ ابتداء سے ہی ہم انٹرنیشنل اور مقامی اسٹبلشمنٹ کے دباؤ میں ہیں، ’’ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یا ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے‘‘ یہ وضاحتیں نئی نہیں،ہمیشہ سے یہی سنتے آ رہے ہیں۔ گذشتہ چالیس سال سے تو سیاست دان خود یہ صلاح مشورے کرتے بھی دیکھے گئے ہی کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار کا تعین ہونا چاہیے، دوسری یہ کہ عدلیہ کے کردار پر بھی شروع دن سے ہی سوالیہ نشان اور تحفظات رہے ہیں۔ایک بدقسمتی تو یہ رہی کہ پاکستان اپنی عمر کے ابتدائی 9سال تک آئین جیسی نعمت سے محروم رہا۔ خدا خدا کر کے آئین نافذ ہوا تو اسے دو سال تک بھی برداشت نہ کیا گیا۔جب آئین معطل کر کے، اسمبلی برخاست کی گئی اور ملک میں پہلے مارشل لاء کی بنیاد رکھی گئی توعدلیہ کو مارشل لاء کے ساتھ کھڑا پایا گیا۔ مولوی تمیز الدین اور جسٹس منیر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ مارشل لاء ایڈمنسڑیٹر جنرل ایوب خان کا جمہوریت کے چیمئن امریکا کی جانب سے جس گرم جوشی سے استقبال ہوا اورجو پذیرائی ملی اس نے جمہوریت کے سارے دعوئوں کی قلعی کھول دی۔ ہمارے یہاں سیاست کا ایک ’’حسن‘‘ یہ بھی ہے کہ جس بات کی تردید کی جائے اس میں کوئی نہ کوئی صداقت ضرور ہوتی ہے۔ آج سیاست نے وقت کے ساتھ ساتھ نئی کروٹ لی ہے، اور اب یہ’’ بیانے‘‘ کے گرد گھومنے لگی ہے۔ بیانیے کا ہمیشہ حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ آج کا سیاسی منظر نامہ اس کا بہترین عکاس ہے۔
دور کی بات کا تو خیر اس وثوق سے کہا نہیں جا سکتامگر گذشتہ پچاس سال کی حقیقت تو آنکھوں کے سامنے ہے۔ ملک کے دونوں بڑے ڈیم اس دور کی پیداوار ہیں۔ پاکستان ان چند خوش قسمت ممالک میں سے ہے جن کے پاس پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے سب سے زیادہ ذرائع موجود ہیںمگر ملک اور قوم کے حق میں سوچنے والاسیاستدان پیدا ہی نہیں ہوا ۔ بھٹو گو مارشل لاء کی پیداوار تھا مگر بنیادی طور پر نیشنلسٹ ہونے کے ناطے اسے ملک سے وفاداری کا احساس تھا مگر وہ بھی اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھول گیا، دوسرا بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اسے خود سر بنایا۔اس نے کچھ ایسے غیر ضروری فیصلے لیے جو اس کو مہنگے پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ امریکا کی سازش کا شکار ہوا۔ تا ہم تب اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے، ضیاء دور میں امریکا کی جنگ میں شریک ہونے کی قوم نے بہت بڑی قربانی دی۔9/11کو بنیاد بنا کراسامہ بن لادن کے خلاف فوج کشی پر اس کا ساتھ دینا دوسری بڑی غلطی تھی جس کے نتیجے میں بہت بڑے جانی نقصان کے ساتھ خطے کے امن کو دائو پر لگایا گیا۔پاکستان سے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلیے یہاں حکومتیں بنانا ، گرانانئی بات نہیں۔ مگر اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، خاص کر کرونا کی مالی اور جانی تباہ کاریوں کے بعد دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں دھڑام سے نیچے آ گریں۔ چین جو خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں امریکا سے آگے نکل چکا ہے، تو امریکا بہادر سے برداشت نہیں ہو رہا، افغانستان سے’’’ بہت بے آ برو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ کے مصداق، اب وہ زخمی سانپ کی طرح تلملا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے، وقت کے نئے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد رویے اسے پسند نہیں، وزیرِ اعظم کو روس کے درے کو جواز بنا کرپاکستان میں رجیم چینج کے بیانیے نے جنم لیا۔ جس کے نتیجے میں ملکی سیاسی اور معاشی حالات دگر گوں ہیں ،نئی رجیم جو اخلاقی گراوٹ کا شکار ہونے کے سبب حالات پر قابو پانے میں ناکام ہے۔عوام ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہے،کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ’’عوام وچاری کیہ کرے، ٹھنڈا پانی پی مرے؟ بدقسمتی سے پانی کی کمیابی اسے ایسا بھی نہیں کرنے دے رہی۔ اس ناکامی نے عمران خان کے سازشی بیانے کو پھلنے پولنے کا موقع فراہم کیا،اس سے بڑھ کر کہ یہ بیانیا عوام میں جڑھ پکڑ رہا ہے،اب تک کی صورتحال کے تناظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے ۔