واہ پاکستان!
حالات کی ماری برصغیرکی بانجھ سرزمین میں جب ایک وجودظہور میں آیا تو کرہ ارض کی انسانی سوسائٹی نے اسے باقاعدہ ایک کرشمہ خدا وندی قرار دیا کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا اس کا نام ’’پاکستان‘‘ رکھا گیا۔ جس باپ نے اسے وجود دیا ’’اس کی زندگی اتنی مختصر تھی کہ وہ اس کی صحیح پرورش بھی نہ کر سکا۔ اسے یتیم سمجھ کر کچھ دوسرے ملکوں کے بحری قزاقوں نے اسے اپنا غلام بنانا چاہا‘‘ ان سے بچ نکلا تو اپنوں نے اسے بے یارو مددگار سمجھ کر اسے بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ذرا کمانے کی پوزیشن میں آیا تو اپنے ہی لوگ اس کیلئے جیب کترے بن گئے اور اس کی جیبیں خالی کر لیں۔ کچھ قریبی رشتہ داروں نے تو اسے ہر طرف سے اتنا مارا پیٹا کہ بچارے کا ایک بازو ہی توڑ دیا مگر وہ زخم زخم ہوکر بھر بھی اپنے پاؤں پر جما کھڑا رہا۔ مگر اب تو سب اپنے پرائے مل کر اس کا پورا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں لیکن باپ کی دعاؤں ،قادر مطلق حق نواء و کارساز نے اس کی امداد کیلئے ایک آدمی بھیج دیا۔ وہ آدمی اپنے اندر ایک ہمدرد اور درد دل رکھنے والا انسان تھا۔ وہ دوڑتا ہوا آیا اور بے بس لاغر وجود جو اپنوں کی مار کھا کھا کر آدھ موا ہو چکا تھا اسے اپنی بازوؤں میں سمیٹ لیا وہ سمجھ رہا تھا میری نیک نیتی ہمدردی اور خلوص کا حصار ہیں کے ارد گرد اتنا مضبوط ہوگا کہ اب اسے مارنے پیٹنے کوئی نہیں آئے گا وہ یہ بھول گیا تھا کہ وہ اکیلا اتنے سارے حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ جو بہت جوش و جذبے اور احساس یقین سے اس یتیم بچے کو اپنے بازؤں میں سمیٹے کھڑا تھا۔
دولت کے اسلحے سے مسلح ایک جم غفیر اس پر ٹوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے بازؤں سے چھین کر چلتے بنے اور وہ حیرت سے کھڑا رکھتا رہا۔ اسے ابھی بھی یقین ہے کہ وہ اسے واپس اپنے پاس لانے میں کامیاب ہو جائے گا کیونکہ وہ اس بات پر بھی پکا یقین رکھتا ہے کہ چونکہ وہ سچا ہے۔ اس لیے وہ بچہ صرف اس کے پاس ہی محفوظ اور خوش رہ سکتا ہے۔ وہ اﷲ کو بھی اپنا دوست سمجھتا ہے سو وہ پرامید ہے کہ اچانک اس کے لئے اﷲ کی طرف سے غیبی امداد ضرور پہنچے گی۔ وہ اپنے کچھ دوستوں یاروں کے ساتھ ملکر گلیوں محلوں میں اسے ڈھونڈ رہا ہے۔ لوگوں کو یقین تو نہیں ہے اور کچھ دوست اس کی حوصلہ شکنی بھی کر رہے ہیں کہ وہ اس کی تلاش چھوڑ کر واپس چلا جائے لیکن وہ بار بار سب کو یہی کہتا ہے کہ میں ایک بے بس یتیم بچے کو دشمنوں کے حوالے کیسے کر سکتا ہوں۔ میں اﷲ کو کیا جواب دوں گا۔ یہ سب لوگ اﷲ اﷲ کرنے کے باوجود اﷲ کو نہیں جانتے ۔میں تو جانتا ہوں اس کے حساب کتاب کو مانتا ہوں ۔ یہ تو اﷲ کو صرف اپنی ضرورت کے وقت مانتے ہیں اگر انہیں سچا خوف ہوتا تو یہ اس بچے کے کپڑوں کی اس طرح بولیاں نہ لگاتے کیونکہ اس بچے نے ایک قیمتی لباس پہنا ہوا ہے یہ اس لباس کے ٹوٹے پارچے کرنے کیلئے ہر قسم کی قینچی استعمال کر رہے ہیں۔اس بچے کی امداد کو آنے والا شخص ایک کھلنڈرا سا دولت مند انسان تھا جو زندگی کی برائیوں میں زیادہ گہرا نہیں اترا تھا پھر اچانک اس کی زندگی میں ایک انقلاب آیا۔ اس کی والدہ کی ایک بیماری نے اسے گہرائیوں میں سوچنے اور فکر کی طرف مائل کر دیا اور وہ تیزی اور تندہی سے خدا اور اس کے احکامات کی طرف پلٹا اسی پلٹنے نے اسے ایک اچھا سچا اور ایماندار انسان بنا دیا اور اب بے کسوں کی مدد کو پہنچنا اس نے زندگی کا مشن بنا لیا ہے۔ اسی احساس نے اس کے اندر خوف خدا پیدا کر دیا ہے اور وہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے وہ تو کہتا ہے میں نے اس بچے کے باپ کی ساری سوانح عمری پڑھی ہے۔ وہ خدا کی کسی مصلحت کے تحت اسے کم عمری میں ہی اپنے آپ سے جدا کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ میں اس کے باپ کا بھی جوابدہ ہوں اب مجھے کوئی کتنا ہی مارے پیٹے گا میں اللہ اور اس بچے کے باپ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں جان پر کھیل کر بھی اس بچے کی حفاظت کرونگا۔ دیکھنے والے سب دعا کر رہے ہیں کہ اللہ اس مددگار شخص کو استقامت عطا کئے رکھے اور کہیں وہ بددل ہو کر بھاگ نہ جائے کیونکہ اس بیچارے مددگار شخص پر جس طرح تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں اور کردارکشی میں اُس کے کپڑے تار تار کئے جا رہے ہیں لوگ اس کیلئے دعائوں میں مشغول ہو گئے ہیں ۔دوسری طرف اس کے دشمنوں نے بھی اداکاری کے بڑے تھیٹر لگا لئے ہیں اور اعلیٰ معاوضوں کے عوض ایسے ایسے فحش مناظر فلمبند کروا رہے ہیں کہ اپنے پرائے سب مذاق اڑا رہے ہیں اور لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں ایسے ایسے اداکار بھی تھیٹر میں داخل ہو گئے ہیں جن کے ہاتھ پائوں اور زبانیں پیرانہ سالی اور بیماری کی وجہ سے کانپ رہے ہیں مگر اداکاری میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں کیونکہ معاوضے بہت زیادہ ہیں ۔بعض اوقات اس اونچ نیچ پر ایک دوسرے کے بال نوچتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں مگر فلم پھر بھی جاری و ساری ہے۔ کچھ خدا پسند اداکار تو ایسے ہیں جو نماز روزہ چھوڑ کر سٹیج پر کھڑے ہو گئے ہیں بلکہ یہ سب سے زیادہ غضبناک ہو گئے ہیں کیونکہ فلم پروڈیوسروں نے ان کے ساتھ جو معاوضہ طے کیا تھا وہ مُکر گئے ہیں اور دین کے رکھوالے چونکہ جسمانی طور پر زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اس لیے دونوں کی طرف سے مار پیٹ اور ڈیفنس کی جنگ زیادہ خوفناک شکل اختیار کر گئی ہے دیکھیں پردہ کب گرتا ہے ۔